درمیانی طبقے کا سفید پوشی کا بھرم ٹوٹ چکا ہے جبکہ غریب کو روٹی چاند میں نظر آ رہی ہے۔ تندور سے 12 روپے روٹی اور 15 روپے کا نان بس معدے کو دھوکا دینے کے مترادف ہے کیونکہ دو روٹیاں اور دو نان انسانی پیٹ نہیں بھرتے۔ ایک وقت کا سالن دو سو روپے سے کم نہیں ہوتا، وہ بھی صرف چار افراد کے کنبہ کے لیے، سالن بھی سبزی یا دال کا۔ گھی کی قیمت ڈھائی سو روپے فی کلو ہے۔
سرکاری اشتہارات کی اسیر پرنٹ میڈیا اور پیمرا کے زیر اثر الیکٹرانک میڈیا مثبت رپورٹنگ کی فرمانبرداری میں بقا سمجھ رہی ہے۔ تاہم سوشل میڈیا مہنگے آٹے اور مہنگی چینی کو سود جہانگیری قرار دے کر یہ حقیقت آشکار کر رہا ہے کہ سونامی سرکار میں اگر اسٹیبلشمنٹ کے فیشن ہاؤس کا کردار ہے تو سرمایہ جہانگیری کا بھی بڑا کردار ہے۔
ملک کی سب سے بڑی عدالت جہانگیر ترین کو ہمیشہ کیلئے نااہل قرار دے چکی ہے مگر سونامی سرکار کے اقتدار کی باگ ڈور جہانگیر ترین کے ہاتھ میں ہے۔ میرے ایک جاننے والے جو اسلام آباد میں سرکاری ملازم ہیں، اپنی زوجہ کو لے کر جب بڑے ہسپتال گٸے تو انہیں بخار چیک کرنے کیلیے تھرما میٹر خرید کر لانے کے لیے کہا گیا تاکہ بخار چیک کیا جائے۔ اس سے اندازہ کیا جائے کہ دارلحکومت میں کس قدر طبعی سہولیات میسر ہیں۔
انسانی صحت کیلیے ادویات کی قیمتیں احساب شکن بن چکی ہیں، بلڈ پریشر کیلیے جو 15 گولیوں کا پیکٹ صدر زرداری دور میں 50 روپے کا تھا اب ساڑھے آٹھ سو روپے میں مل رہا ہے۔ صدر زرداری کے دور میں اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں انجوگرافی اور پلاسٹی ادویات سمیت مفت ہوتا تھا پر اب خواب بن چکا ہے۔
ماضی میں جب میڈیا پر کرپشن کے چرچے ہوا کرتے تھے تو ناشتہ کے ساتھ دو وقت کی روٹی اور مفت علاج تو میسر تھا، مگر اب عوام روٹی سے معدے کو دھوکا دے رہے ہیں اور ان میں زندگی بچانے کی ادویات خریدنے کی سکت بھی باقی نہیں ہے۔