29651/
حیرت کی بات یہ ہے کہ بچوں سے متعلق اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ تمام متاثرین لڑکیاں تھیں۔ تو پھر لڑکوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں کی ہندوستان میں کیا صورتحال ہے اور ان کے بارے میں کوئی اعداد و شماراس ریکارڈ کیوں نہیں شامل کئے گئے؟ کیا ہندوستان میں چھوٹے لڑکے اس جرم کا نشانہ نہیں بنتے؟
سال 2018 کے دوران ہندوستان میں جنسی تشدد کے 22 واقعات کا جائزہ لیا گیا تو ان واقعات میں اس ظلم کا شکار ہونے والی 20 خواتین (5 نوعمر لڑکیاں اور 15 بالغ خواتین) پائی گئی تھیں۔ ان میں صرف دو واقعات ایسے تھے جس میں دو مرد اس جرم کا شکار ہوئے تھے۔ یہ دونوں واقعات ہندوستانی معاشرے میں لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ثبوت تھے لیکن سوال یہ تھا کہ اس کے باوجود ہندوستانی ویب ساتٹ اس بارے میں خاموش کیوں ہے؟
مزید تلاش کے بعد این سی آر بی کی رپورٹ کے صفحہ 191 پر کچھ ایسے واقعات کا اندراج ملا جنہیں"غیر فطری جرائم کا نام دیا گیا تھا جنہیں (سیکشن 377 آئی پی سی)" کے مطابق درج کیا گیا تھا۔ این سی آر بی کی اس رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں "غیر فطری جرائم کے 1254 متاثرین تھے۔ لیکن ان اعداد و شمار میں جو معلومات شامل نہیں کی گئیں تھی وہ ان افراد کی عمر اور یہ کہ کیا سارے متاثرین انسان تھے یا جانور بھی۔ یہ سوال اس لئے اہم ہو جاتا ہے کہ دفع 377کے مطابق غیرفطری جنسی زیادتی کا شکار مرد، عورت یا جانور ہو سکتے ہیں۔ اس لئے ان اعداد و شمار سے یہ جاننا مشکل ہے کہ متاثرہ افراد کون تھے اور یہ کہ ان کی عمریں کیا تھیں؟
بہرحال، ہندوستان میں جنسی زیادتی کے شکار افراد کے مقابلے میں غیر فطری جرائم کا سامنا کرنے والے متاثرین کی تعداد بہت کم تھی۔ سال 2016 کے دوران ہندوستان میں 16863 بچے (شیرخوار، نابالغ، اور نوعمر لڑکیاں) جنسی زیادتی کا نشانہ بنے تھے، جبکہ غیر فطری جرائم کا نشانہ بننے والے لڑکے (عمر کے گروپ نامعلوم) 1254 تھے– یہ تعداد لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کا صرف7 فیصد حصہ تھی۔ ہندوستان میں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والے بچے (لڑکیاں اور لڑکے) ملک میں جنسی زیادتی کے تمام واقعات کا صرف 45فیصد حصہ تھے جبکہ پاکستان میں، یہ تعداد 70فیصد تھی۔ جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہندوستان سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہیں کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات پر اخبارات زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
ہندوستان میں جنسی تشدد سے متعلق ایک سروے رپورٹ کے مطابق، غیر شادی شدہ خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کا جرم کرنے والوں میں اکثریت رشتے داروں کی جو تقریباً 27فیصد تھے ، ان کے بعد موجودہ یا سابقہ بوائے فرینڈ (18فیصد)، ان کے اپنے دوست یا جاننے والے (17فیصد) اور خاندانی دوست (11فیصد) تھے جبکہ قریبی رشتہ داروں کا اس جرم میں7 فیصد حصہ تھا۔ دادا، اور بھائی جیسے خونی رشتہ دار بھی اس میں شامل پائے گئے تھے جنکی تعداد 630 تھی جو تمام جنسی جرائم کا تقریبا دو فیصد حصہ تھے۔
پاکستان میں، ذاتی طور پر جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 2018 کے دوران اس طرح کے جرائم میں باپ اور بھائی جیسے خونی رشتہ داروں کا حصہ 3فیصد تھا جبکہ قریبی رشتہ داروں کا حصہ 10 فیصد تھا۔ مجرموں کی ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جو جاننے والے تھےاور وہ تمام واقعات کا27فیصد حصہ تھے۔ باقی 60فیصد ایسے افراد تھے جو نامعلوم تھے۔
جنسی جرائم میں خونی رشتہ داروں کی شمولیت ایک ایسا گھناونا عمل ہے جس کے واقعات پاکستان اور ہندوستان میں اکثر ہوتے رہتے ہیں اورافسوسناک بات یہ ہے کہ خواتین کو ہر صورت میں سب سے زیادہ تکلیف اٹھانا پڑتی ہے، خواہ وہ جنسی جرائم کیلئے کی جانے والی کسی کوشش کے خلاف مزاحمت کریں یا محبت کے رشتے قائم کرنے کیلئے کوئی قدم اٹھائیں۔ انکا مقدرانہیں ہردوصورتوں میں موت اور زلت سے ہی دوچارکرتاہے۔
اس طرح کے جرائم پر معاشرے کی بے حسی ایک ایسا مسئلہ ہے جسکا پاکستان اور ہندوستان دونوں ہی شکار ہیں۔ اس کے باوجود ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں ان جرائم پرعوام نے اپنے بھرپورغم و غصہ کا اظہار کیا۔ پہلا واقعہ 16 دسمبر 2012 کو سامنے آیا جب دہلی کی ایک بس میں یونیورسٹی کی ایک طالب علم کے ساتھ ہونے والی اجتماعی جنسی زیادتی کے خلاف لوگوں نے شدید احتجاج کیاتھا اور اس کے اثرات پورے ہندوستان کے علاوہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی محسوس کئے گئے تھے۔
اس طرح کے مظالم کے خلاف عوامی رد عمل کا اظہار ہندوستانی معاشرے میں پاکستان کے مقابلے میں قدرے زیادہ عام ہے۔ لیکن پاکستان کے لوگوں نے بھی پنجاب کے ضلع قصور میں ایک چھ ماہ کی بچی، زینب کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور قتل کے واقع پر اپنےغصہ کا اظہار شدید احتجاج کے زریعے کیا تھا۔ قصور شہرمیں اور ملک کے دوسرے شہروں میں کئی روز تک اس واقعے کے خلاف احتجاج جاری رہا تھا جس نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ اصل مجرم کو جلد ازجلد گرفتار کریں اور اسے کیفرکردار تک پہنچائیں۔ اس واقعے کے بعد، اس طرح کا کوئی دوسرا واقعہ ملک میں اس سطح پر عوامی رد عمل کا سبب نہیں بن سکا۔ یہاں تک کہ پنچاب کے ضلع مظفر گڑھ میں بوٖڑھے والدین کے سامنے دس بااثر افراد نے جب ماں اور اس کی جوان بیٹی کو اجتماعی عصمت زیادتی کا نشانہ بنایا تب بھی اس انتہائی افسوسناک اور خوفناک واقعے کے خلاف نہ تو کوئی عوامی احتجاج کیا گیا اور نہ ہی اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے اس واقع کا کوئی نوٹس لیا گیا۔ نہ تو اس واقعہ پر کسی کی غیرت جاگی اور نہ ہی اس کے نتیجے میں کسی غیرت دار باپ یا بھائی نے ان مجرموں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کی جنہوں نے واقعی دو بے بس خواتین کی بے عزتی کی تھی۔
ہندوستان میں بھی اکثر بااثر لوگ ذات یا مذہبی عقائد کی بنیاد پر اپنے جنسی جرائم کے حق میں لوگوں کی حمایت حاصل کر لیتے ہیں۔ جنوری 2018 میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک آٹھ سالہ بچی، آصفہ بانو کو وحشیانہ اجتماعی عصمت دری کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ اس مذموم واقعے کے بعد جو عوامی ردعمل سامنے آیا وہ نہائت افسوسناک تھا۔ اس علاقعے کے لوگ اس واقع کی مذمت کے بجائے ہندو مسلم خطوط پر تقسیم ہوگئے تھے۔ جموں میں وکلاء نے پولیس کو چارج شیٹ داخل کرنے کے لئے عدالت میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی، جبکہ ملزم کے ایک وکیل نے الزام لگایا کہ مسلم خانہ بدوش جموں کے ہندو اکثریت کو تبدیل کرنے کی سازش میں شریک ہیں۔
نہ صرف عام لوگوں نے ایسے رویے کا مظاہرہ کیا بلکہ جموں سے شائع ہونے اخبارات نے بھی اس جرم کواپنے اخبارات میں زیادہ جگہ نہیں دی جبکہ مسلم اکثریت والے سری نگر کے اخبارات نے اس واقعے کو اپنے ابتدائی صفحات پر جگہ دی اور خوب شور مچایا۔ دوسرا واقعہ، 13 دسمبر 2019 کو پیش آیا ، جس میں دہلی کے نزدیک واقع ہندو نگر گاؤں میں ایک نچلی ذات کی عورت کوسخت تشدد کے بعد نذر آتش کردیا۔ اس واقعے کے پیچھے دو ایسے افراد بھی شامل تھے جن پر اس عورت نے گذشتہ سال عصمت دری کا الزام لگایا تھا۔ ملزمان ہندو نگر کے اعلیٰ ذات والے ہندوتھے۔ بہت سے اعلی ذات کے دیہاتیوں نے مجرموں کا دفاع کیا اور اس عورت کے کردار پر سوالیہ نشان لگایا، کچھ نے اس کی موت کی وجہ محبت میں ناکامی قرار دیکرمسترد کر دیا۔
ملزمان کے اہل خانہ کی درجنوں خواتین اور کم عمر لڑکیوں نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے احتجاج بھی کیا۔
اس تحقیق کے دوران سامنے آنے والے پاکستان اور بھارت کے مابین ایک بڑا فرق جنسی زیادتی کے بعد ہلاک ہونے والے والوں کی تعداد تھا۔ ہندوستانی ویب سائٹ پر دستیاب اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2016 کے دوران پورے ہندوستان میں زیادتیوں کے ذریعہ 38،937 میں سے 182 افراد کو زیادتی کا نشانہ بنایاگیا تھا -جوایسے تمام واقعات کا تقریباً 0.5 فیصد حصہ تھا۔
پاکستان میں، کسی بھی پولیس کی ویب سائٹ پر یہ معلومات موجود نہیں ہیں۔ البتہ ذاتی طور پر اکٹھا کیے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2018 میں جنسی زیادتی کے 191 افراد میں سے 48 کو جنسی زیادتی کے بعد مجرموں نے ہلاک کردیا تھا جو مجموعی طور پر کل متاثرین کا 25 فیصد افراد تھے۔
معاشی نا برابری، کم عمری، قانون نافذ کرنے والوں کا غیرفعال نظام اور اس جرم کا نشانہ بننے والوں کا بے ضرر اور معاشی طور پر کمزور ہونا انہیں مجرموں کیلئے ایک ایسا آسان ہدف بناتا ہے جو انہیں اپنے شکار کی بے حرمتی کرنے پر اکساتا ہے اوروہ کسی شرم و حیا کےبغیر بلاخوف و خطر اپنے جرائم کا ارتکاب کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ صدیوں پرانی عادتیں ہیں جنہیں بغیر کسی عملی جدوجہد کے بغیرختم نہیں کیا جاسکتا لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہیکہ مظلوم نہائت کمزور اور بے یارومددگار ہیں جبکہ ظالم اس قدر طاقتور کہ وہ اس قسم کی ہراس کوشش کو باآسانی کچلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو اسے دوسروں کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے مواقعوں سے سے محروم کر دے۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک میں یکساں اور ناقابل تردید حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہیکہ کیا ہمیں اس وقت تک خاموش تماشائی بنا رہنا چاہیے جب تک کہ ہم یا ہمارے لواحقین ایسے جرائم کا شکار نہ ہوجایئں؟