منٹو آج بھی سینسرشپ سے لڑ رہا ہے

02:44 AM, 4 Jan, 2019

آمنہ احسن
برسوں پہلے بھی منٹو اور اسکے لکھے افسانے اور مضامین منفی بحث و مباحث کے زیر اثر تھے۔ برسوں پہلے بھی منٹو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ 50 کی دہائی میں بھی اسے فحش نگاری کی زرد سنسر شپ کا سامنا تھا اور 2018 میں بھی اس کی زندگی پر بننے والی فلم "منٹو" کو سنسر شپ کا سامنا کرنا پڑا۔

نندتا داس نے منٹو کی محبت میں اس کی زندگی پر ایک فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔ نندتا نے منٹو کا کردار نبھانے کے لئے نواز الدین صدیقی کو چنا۔ منٹو کی بیگم (صفیہ) کا کردار راسیکا ڈگل نے نبھایا ہے۔ فلم میں منٹو کی زندگی کا وہ حصّہ دکھایا گیا جب وہ ممبئی میں رہائش پذیر تھے۔ منٹو کا لاہور آنا، حالات کی گردش، مسلسل ناکامیاں، دل میں بٹوارے کے بعد ہوئے اذیت ناک واقعات کی آگ اور شراب کی لت سبھی کچھ اس فلم کا حصہ ہیں۔

فلم میں عصمت چغتائی بھی نظر آئیں گی، جن کا کردار راجشری دیش پانڈے نبھا رہی ہیں۔ منٹو کے سب سے قریبی دوست شیام کا کردار طاہر راج بھاسن نبھا رہے ہیں۔ فلم میں احمد ندیم قاسمی بھی نظر آئیں گے اور فیض احمد فیض بھی۔

لاہور میں منٹو کے قریبی دوست شاد امرتسری بھی نظر آئیں گے۔

سوال یہ ہے کہ نندتا "منٹو" کو پیش کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوئیں؟ کیا منٹو کی شخصیت ویسی ہی تھی جیسے اس فلم میں نظر آئی؟



فلم میں ممبئی میں نظر آنے والا منٹو، لاہور میں نظر آنے والے منٹو سے یکسر مختلف نظر آئے گا۔ ایسا نہیں کہ منٹو کے افسانوں میں ظاہر کی گئی تلخ حقیقتیں ممبئی میں قیام کے دوران موجود نہ تھیں مگر لاہور میں موجود منٹو اور انکے افسانے ناقدری کا شکار نظر آئیں گے۔

فلم کا یہ حصّہ مکمل حقیقت پر مبنی ہے۔ مانا کہ منٹو کے انداز میں تلخی تو بہت پہلے سے تھی لیکن لاہور منتقل ہونے کے بعد منٹو کے انگ انگ میں جیسے تلخی بھر گئی تھی۔ انہیں اپنے افسانوں کی کتابیں چھاپنے والے پبلیشرز سے نفرت تھی کیونکہ وہ خود جتنا کماتے تھے اس کا ایک فیصد بھی منٹو کو نہیں ملتا تھا۔

ایک کمی جو شاید منٹو کے دوست احباب کے لکھے خاکوں کو پڑھنے والوں کو محسوس ہو وہ ہے منٹو کا کردار نبھاتے نواز الدین صدیقی کا سانولا رنگ۔ ان پر لکھی تحریروں میں ان کے قریبی دوستوں نے منٹو کا جو ظاہری نقشہ کھینچا ہے اس کے مطابق منٹو ایک خوش شکل انسان تھے۔ انکا رنگ گورا تھا۔

اچھی بات یہ ہے کہ منٹو کا ایک منفی تاثر جو دنیا کے سامنے تھا، اسے کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ منٹو کو ایک شرابی کے ساتھ ساتھ حس مزاح سے بھر پور نوجوان، ایک بہترین دوست، محبت کرنے والا شوہر اور ایک بہترین آرٹسٹ دکھایا گیا ہے۔ منٹو ہاتھ میں کیمرے پکڑے تصویریں کھینچتے نظر آئیں گے۔



صفیہ کا کردار نبھانے والی راسیکا ڈگل نے بہت خوبصورتی سے ایک بھرپور محبت کرنے والی بیوی کا کردار نبھایا ہے۔ اگرچہ منٹو کے آخری ایام میں جب وہ شراب کو فیملی سے زیادہ اہمیت دینے لگے تھے تو صفیہ ان سے نالاں نظر آئیں۔

ممبئی میں شیام چڈا جو کہ منٹو کے بہترین دوست تھے، کا کردار بہت خوبصورت ہے اور دلچسپ بھی۔ منٹو اور شیام بہترین دوست تھے۔ منٹو بٹوارے کے بعد ممبئی چھوڑنے کے حق میں نہ تھے۔ لیکن ایک روز شیام نے غصے میں منٹو کو مسلمانوں اور پاکستان کے بارے میں کچھ ایسی باتیں کیں جن کو برداشت نہ کرتے ہوئے منٹو نے ممبئی چھوڑ کر لاہور آنے کا فیصلہ کیا۔

عصمت چغتائی کا کردار مختصر سہی، لیکن میرا پسندیدہ کردار ہے۔ راجشری دیش پانڈے نے نٹ کھٹ سا کردار بے حد عمدگی سے نبھایا ہے۔ ان کی گفتگو سے ان کی منٹو کے لئے محبت صاف ظاہر ہے۔

فلم کافی حد تک بٹوارے کی تباہ کاریاں عکس بند کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ 40 کی دہائی کو ذہن میں رکھ کر تمام فنکاروں کےکاسٹیوم ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ فلم میں استعمال ہونے والے ٹائپ رائیٹرز سے لے کر، تانگے اور گاڑیاں تک 1940 کی دہائی کی یاد دلاتے ہیں۔

نندتا نے فلم بننے کے دوران ہی بتایا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ "منٹو کی زندگی کا وہ حصہ جو انہوں نے لاہور میں گزارا، اس کی عکس بندی پاکستان لاہور میں کی جائے"۔

افسوس کہ نندتا کو اس کی اجازت نہ مل سکی۔ اس طرح فلم بھارت میں ہی مکمل کر لی گئی۔

فلم جب 2018 ستمبر میں ریلیز ہوئی تو پاکستان میں اسے ریلیز کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ نندتا نے اپنے ٹویٹ میں بارہا افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے حکومت وقت سے درخواست بھی کی کہ منٹو چونکہ صرف ہندوستان کے نہیں، برصغیر کے افسانہ نگار تھے تو اس فلم کو دونوں ملکوں میں ریلیز ہونے کی اجازت دینی چاہیے۔ لیکن کبھی غیر مناسب زبان اور کبھی فحش مواد کی شکایات کر کے فلم کو پاکستان میں ریلیز کرنے سے انکار کر دیا گیا۔

وہ الزامات جن کا دفاع کرتے کرتے سعادت حسن منٹو اس دنیا سے کوچ کر گئے، وہ الزامات آج بھی اپنی جگہ پر برقرار ہیں لیکن افسوس آج منٹو فحش نگاری کے الزامات کے آگے اپنا دفاع کرنے کو موجود نہیں۔
مزیدخبریں