کل میں ایک دوست کے ساتھ ہلکی پھلکی بات چیت کر رہا تھا تو اس کی باتیں بھی کافی چونکا دینے والی تھی۔ وہ بھی ڈگری لینے کے بعد بے روزگاری اور اس بے روزگاری پر معاشرے اور گھر والوں کے طعنوں کی وجہ سے خاصہ مایوس تھا۔ اس کی حالت ایسی تھی کہ مجھے یہ محسوس ہوا کہ خدانخواستہ عنقریب وہ بد ترین نفسیاتی مسائل کا شکار ہو سکتا ہے۔ ایسی ہی صورت حال آج سے کم و بیش پانچ سال قبل میرے ایک قریبی عزیز کی تھی۔ پھر وقتاً فوقتاً ایسے لوگوں سے مُلاقات ہوتی رہی جو ایسے ہی معاشی مسائل کی وجہ سے پریشانی میں مُبتلا تھے۔
عام لوگوں سے ملو تو ان کا بھی کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ زندگی کی گاڑی کا پہیہ چلانے کے لیے کوئی دو دو نوکریاں کر رہا ہے اور کوئی دو سے بھی زیادہ۔ پورا معاشرہ ایک عجیب سی پریشانی اور کشمکش میں مُبتلا ہے۔ جو لوگ صبح کسی جگہ نوکری کرتے ہیں وہ بھی رات کو کوئی دوسرا دھندا کر کے اپنا گُزر بسر کرتے ہیں۔ جبکہ معاشرے کے اُمرا کا حال دیکھیں تو ان کا قد کاٹھ دن بہ دن اونچا ہوتا جا رہا ہے۔ کل جس کے تین بنگلے تھے آج وہ چھٹا خریدنے کے درپے ہے۔
جتنے بھی عالمی سروے اٹھا کر دیکھے جائیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں معاشی عدم مساوات بڑھتی جا رہی ہے۔ سرمایہ دار طبقہ غریبوں کے بدن سے کپڑے تو اتار چکا ہے اب اس کی کھال نوچ کر اپنا سرمایا بڑھانے پے تُلا ہے۔ غریبوں کو سرمایہ دار طبقہ اچھے دنوں کا جھانسہ دے کر ان کی حمایت سے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتا ہے اور ان ایوانوں میں پہنچ کر ان کی توانائیوں کا محور صرف ان کی اپنی جیبیں اور ان کے اپنے پیٹ ہوتے ہیں۔
پاکستان میں بھی تحریکِ انصاف اور گذشتہ آنے والی حکومتوں بشمول پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلزپارٹی نے انھیں ہتھکنڈوں کا سہارا لیا ہے۔ لیکن جب بھی ذرا سی غیرت انگڑائی لینے لگتی ہے تو اسٹیبلشمٹ اس کی راہ میں روڑے اٹکانہ شروع کر دیتی ہے۔
جالب اور فیض عوام کے اس درد میں ماتم کناں ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن جس مزاحمت کا بیج انھوں نے بویا تھا ان کو بھی ان نام نہاد جمہوریت پسندوں نے کُچل کر اپنا راستہ ہموار کیا ہے۔ آج عوام شدید پریشانی اور کرب میں مبتلا ہوئے ہیں لیکن جرات نہ ہونے کی وجہ سے اس ظلم کے خلاف برسرِپیکار نہیں ہو پاتے۔ اور جو کوئی بھی ان کو ان مسائل کے خلاف حقیقی معنوں میں یکجا کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے خلاف سرمایہ دارانہ نظام کے آلا کار اوچھے ہتھکنڈے آزمانہ شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن آج بھی میرے بشمول بہت سے نوجوان صبحِ روشن کی امید لگائے ہیں۔ اب وہ صبح روشن آئے گی کیسے؟ اس کے لیے لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ، اس سُرخ سویرے کی امید تو ہمیں صدیوں سے ہے جیسا کہ فیض نے بھی کہا تھا:
ہم دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے