سینیٹ الیکشن پر صدارتی ریفرنس کی سماعت: سینیٹ الیکشن کا طریقہ آئینی، قومی اسمبلی کا قانونی ہے، اٹارنی جنرل، عدالت تضاد میں کیوں پڑے؟: بینچ

12:36 PM, 4 Jan, 2021

نیا دور
 

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ کی جانب سے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کی گئی۔

5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں  جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل ہیں۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ آرٹیکل 226 کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ صدارتی ریفرنس میں سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری سے نہ کرنے کا قانونی سوال اٹھایا گیا ہے۔ بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق آئین و قانون کے تحت انتخابات کا مختلف طریقہ ہے اور اب آپ چاہتے ہیں عدالت آئین اور قانون کے تحت ہونے والے انتخابات میں فرق واضح کرے۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا آرٹیکل 226 کا اطلاق صرف آئین کے تحت ہونے والے انتخابات پر ہوتا ہےْ جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ عدالت اس تضاد میں کیوں پڑے؟

 

انہوں نے پوچھا کہ کیا قومی اسمبلی کا انتخاب آئین کے تحت نہیں ہوتا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عام انتخابات الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت ہوئے، آئین کے تحت نہیں۔

اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین میں سینیٹ اور اسمبلی انتخابات کا ذکر ہے، مقامی حکومتوں کے انتخابات کا آئین میں ذکر نہیں۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات کیسے ہونے ہیں یہ بات الیکشن ایکٹ میں درج ہوگی، الیکشن ایکٹ بھی آئین کے تحت ہی بنا ، انہوں نے  ماید کہا کہ کیا کوئی قانون آئین سے بالاتر ہوسکتا ہے؟

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آئین یا قانون میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کے پاس اختیار ہے، سینیٹرز صوبوں کے نمائندے ہوتے ہیں، سینیٹرز کو منتخب کرانے والے ووٹرز اپنی سیاسی جماعتوں کو جواب دہ ہیں.

اٹارنی جنرل کی استدعا پر عدالت نے تمام قومی و صوبائی اسمبلیوں کے سپیکرز، الیکشن کمیشن، اور ایڈووکیٹ جنرلز کو رائے دینے کے لئے نوٹسز جاری کر دیئے۔ ساتھ ہی اٹارنی جنرل کو اخبار میں اشتہار دینے کا بھی حکم دیا تا کہ جو بھی رائے دینا چاہتا ہے وہ عدالت تک پہنچ جائے۔
مزیدخبریں