خبروں کے مطابق، لنکن شائر کاؤنٹی اسپتال میں کام کرنے والی 37 سالہ نرس مونیکا المیڈا نے پچھلے سال کورونا ویکسی نیشن مکمل کروا لی تھی لیکن 31 اکتوبر 2021 کو وہ کورونا وائرس کا شکار ہو کر بیمار پڑگئیں۔
بیماری کی شدت بڑھنے پر انہیں 9 نومبر کے روز اسی اسپتال میں داخل کروا دیا گیا جہاں وہ ملازمت کر رہی ہیں۔ البتہ وہ پہلے ہی ایک قانونی دستاویز پر دستخط کرکے اس بات پر رضامندی ظاہر کرچکی تھیں کہ کسی نئے طریقہ علاج کو ان پر آزمایا جاسکتا ہے۔ اسپتال میں داخل ہوجانے کے بعد بھی ان کی طبیعت بگڑتی گئی اور 16 دسمبر کے روز وہ کوما میں چلی گئیں۔
اس موقع پر ڈاکٹروں نے آخری حربے کے طور پر ’ ویاگرا‘ آزمانے کا فیصلہ کیا کیونکہ سابقہ تحقیقات میں یہ مفروضہ سامنے آیا تھا کہ کووِڈ 19 کی شدید کیفیات کا ازالہ کرنے میں یہ دوا بھی مفید ثابت ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ ’سلڈینیفل‘ (Sildenafil) المعروف ’ ویاگرا‘ کا اصل مقصد پھیپھڑوں کی رگوں کی سختی کم کرتے ہوئے انہیں کشادہ کرنا اور خون کے بہاؤ میں سہولت پیدا کرنا ہے۔
ویاگرا کو اپنی اسی خاصیت کی بناء پر کووِڈ 19 کی شدت کم کرنے میں امید افزا سمجھا جا رہا تھا لیکن اب تک کسی مریض پر اس کی آزمائش نہیں کی گئی تھی۔
اس طرح مونیکا المیڈا وہ پہلی مریضہ بن گئی ہیں جن پر کووِڈ 19 کے علاج کےلیے ویاگرا آزمائی گئی ہے۔
کوما میں ہونے کی وجہ سے ویاگرا انہیں براہِ راست غذائی نالی کے راستے دی گئی جس نے پیٹ میں پہنچ کر ان کے خون میں شامل ہونا شروع کیا۔
جلد ہی ان کی طبیعت بہتر ہونے لگی، ان کی سانسیں بحال ہونے لگیں اور خون میں آکسیجن کی مقدار بھی بڑھنے لگی۔
بالآخر ہفتے بھر بعد انہیں ہوش آگیا لیکن شدید کمزوری کی وجہ سے مزید دو ہفتے اسپتال ہی میں گزارنے پڑے۔
اس وقت اگرچہ وہ کورونا کو مکمل شکست دے کر صحت یاب ہوچکی ہیں لیکن کمزوری اب بھی باقی ہے جسے ختم ہونے میں مزید دو سے تین مہینے لگ سکتے ہیں۔
لنکن شائر کے مقامی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے مونیکا نے اپنے اسپتال کے علاوہ ’ ویاگرا‘ کا بھی خصوصی شکریہ ادا کیا ہے جس کے استعمال سے ان کی جان بچائی گئی ہے۔