ان کا کہنا تھا کہ فارن فنڈنگ کیس کے معاملے پر ماہرین قانون مختلف آرا رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ بڑا پیچیدہ پراسس ہے۔ یہ معاملہ الیکشن کمیشن سے کیبینٹ میں جاتا ہے اور اس کے بعد بھی بڑے مراحل سے گزرتا ہے۔
انہوں نے ماہرین قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ زیادہ سے زیادہ صرف یہ ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے پیسے ضبط کر لئے جائیں یا اس پر جرمانہ کر دیا جائے۔ تاہم دوسری رائے یہ ہے کہ یہ معاملہ بہت ہی سنگین ہے، اس لئے پی ٹی آئی کیخلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ حکومت کو اقتدار سے نکالنے کی جو افواہیں ہیں، انھیں ایک اور ٹھوس چیز فراہم ہوگئی ہے۔
سینئر صحافی افتخار احمد نے کہا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن کے پاس ثبوت ہیں تو بیرون ممالک سے فنڈنگ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کو ڈس کوالیفائی کر دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم اصولوں، شفافیت اور جمہوری عمل کی بات کرتے ہیں تو یہ معاملہ عوامی سطح پر زیر بحث آنا چاہیے۔ جب ہم عام آدمی کو قومی اسمبلی یا سینیٹ کیلئے ایک مخصوص رقم خرچ کرنے کا پابند بناتے ہیں تو پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں سے بھی یہ سوال پوچھا جانا چاہیے۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام خبر سے آگے میں فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک کی سلامتی کی آڑ میں ایسی چیزوں کو چھپانے کا رواج اب ختم ہو جانا چاہیے۔ بلکہ پاکستان کی سلامتی کیلئے یہ چیز ضروری ہے کہ بتایا جائے کہ سیاسی جماعتیں کن کن ممالک سے پیسے لیتی ہیں۔
اس موضوع پر بات کرتے ہوئے عنبر شمسی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں فارن فنڈنگ اکھٹی کرتی ہیں۔ اس میں تحریک انصاف پیش پیش ہے۔ الیکشن کمیشن سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پر کیا کارروائی کرتا ہے، یہ تو اس کی صوابدید ہے لیکن اس سے پی ٹی آئی کی ساکھ کو ضرور نقصان پہنچے گا۔ تاہم اس قانون میں بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ یہ تناسب طے کیا جانا ضروری ہے کہ اوورسیز پاکستانی اپنی پسندیدہ جماعت کو فنڈ دے سکتے ہیں۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے زمینی حقائق کو سامنے رکھا جائے تو فارن فنڈنگ کے حوالے سے جو حقائق سامنے آج آئے ہیں، وہ پی ٹی آئی کو کالعدم اور اس کے اراکین کو ڈس کوالیفائی کرنے کیلئے کافی ہے۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں قانون کا اطلاق کس طرح ہوتا ہے۔
مریم نواز اور پرویز رشید کی مبینہ آڈیو لیک کے معاملے پر بات کرتے ہوئے افتخار احمد کا کہنا تھا کہ مجھے یہ اس گفتگو کی ریکارڈنگ پر دکھ ہے۔ جبکہ مجھے اس رویے پر بھی دکھ ہے کہ یہ لوگ اس وقت تک ہمیں صحافی نہیں سمجھتے جب تک ان کی مکمل خواہشات کے مطابق بات نہ کریں۔ پرویز رشید جیسے سیاسی رہنما سے مجھے ایسی گفتگو کی امید نہیں تھی، انہوں نے تو جمہوریت کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں۔