عام انتخابات؛ بلوچستان کے سرد علاقوں میں ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہے گا

چمن، پشین، لورالائی، قلات اور سوراب میں دسمبر، جنوری اور فروری کے مہینوں کے دوران گھروں سے باہر نکلنا بھی مشکل ہو جاتا ہے چہ جائیکہ کہ کوئی الیکشن مہم چلا سکے یا پھر پہاڑی علاقوں کے لوگ ووٹ دینے پولنگ سٹیشن تک آ سکیں۔ اس موسم میں بلوچستان کے اکثر لوگ کراچی اور اندرون سندھ کے علاقوں میں چلے جاتے ہیں۔

04:25 PM, 4 Jan, 2024

محمد اقبال مینگل

الیکشن کمیشن کی جانب سے 8 فروری کے دن عام انتخابات کےاعلان کے بعد خیال کیا جا رہا ہے کہ بلوچستان کے سرد علاقوں میں ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہ سکتا ہے۔ اگرچہ بلوچستان میں ہمیشہ ٹرن آؤٹ کم ہی رہا ہے۔ چونکہ بلوچستان پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے اس لیے دور دراز پہاڑوں کے رہنے والے اکثر حق رائے دہی سے محروم رہتے ہیں یا محروم رکھے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ دشوار ترین راستے، آگاہی کی کمی اور شناختی کارڈ کی عدم موجودگی کو بھی گردانا جاتا ہے۔ بہرکیف یہ تمام عوامل ہر الیکشن میں رہتے ہیں تاہم اس بار موسم سرما میں الیکشن کا انعقاد ٹرن آؤٹ پر زیادہ اثر انداز ہو سکتا ہے۔

گذشتہ عام انتخابات میں پنجاب میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 58.3 فیصد، سندھ 47.6 فیصد، خیبر پختونخوا میں 45.5 فیصد جبکہ بلوچستان میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 45.3 فیصد رہا تھا۔ ان انتخابات کے دوران بلوچستان میں ووٹرز ٹرن آؤٹ باقی تمام صوبوں سے کم رہا تھا حالانکہ گذشتہ دو عام انتخابات مئی اور جولائی میں ہوئے تھے اور یہ موسم سرد علاقوں کے لیے نسبتاً موزوں ہوتے ہیں۔

چمن، پشین، لورالائی، قلات اور سوراب میں دسمبر، جنوری اور فروری کے مہینوں کے دوران گھروں سے باہر نکلنا بھی مشکل ہو جاتا ہے چہ جائیکہ کہ کوئی الیکشن مہم چلا سکے یا پھر پہاڑی علاقوں کے لوگ ووٹ دینے پولنگ سٹیشن تک آ سکیں۔ ان علاقوں میں گذشتہ سال ماہ فروری میں برف باری بھی ہوئی تھی اور درجہ حرارت منفی 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر گیا تھا۔ اس موسم میں بلوچستان کے اکثر لوگ کراچی اور اندرون سندھ علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔

اسی تناظر میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور مرکزی جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفورحیدری کا بھی بیان آیا تھا کہ 8 فروری کو بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں شدید سردی ہوتی ہے اور اس دوران الیکشن کروانے سے ان کا ووٹ بینک متاثر ہو گا۔

گلشن معمار کراچی میں رہائش پذیر میر نواب مینگل کا آبائی علاقہ سوراب ہے۔ ان کے مطابق وہ اور ان کے 800 کے قریب عزیز و اقارب کراچی میں مقیم ہیں۔ ہر الیکشن میں ہم مل کر انتظامات کرتے ہیں اور ووٹ دینے کے لیے آبائی علاقے کا رخ کرتے ہیں۔ ہم عزیز و اقارب مختلف سوچ کے حامل اور الگ پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ووٹ جیسے فریضے کے لیے ایک ساتھ بڑے اہتمام کے ساتھ واپس جاتے ہیں، مگر ہمارا آبائی علاقہ ان شہروں میں شمار ہوتا ہے جہاں سردی کی وجہ سے معمولات زندگی رک جاتے ہیں۔ ہم سردیوں کے دوران آبائی علاقے میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس بار الیکشن سردیوں میں ہو رہے ہیں اور ہمیں خدشہ ہے کہ ہم ووٹ کے حق سے محروم رہ جائیں گے۔

سابق ایم این اے قلات مولانا محمود شاہ کا کہنا تھا کہ ماہ فروری میں قلات میں سخت سردی ہوتی ہے اور درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے چلا جاتا ہے۔ عام طور پر فروری میں درجہ حرارت منفی 4 تک گر جاتا ہے۔ گذشتہ سالوں میں فروری میں درجہ حرارت منفی 3 تک پہنچ گیا تھا۔ اس لیے قلات، خضدار، مستونگ، سوراب میں موسم سرما کی تعطیلات دسمبر سے مارچ تک ہوتی ہیں جن کے دوران یہاں کے لوگ کراچی و دیگر گرم شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق 5 سے 6 لاکھ لوگ سردیوں میں یہاں سے دوسرے علاقوں میں چلے جاتے ہیں۔ باقی ماندہ لوگ گھروں سے باہر بھی نہیں نکلتے۔ اس صورت حال میں ووٹرز کو گھروں سے نکالنا انتہائی مشکل امر ہو گا۔

خضدار سٹی سے منتخب سابق ایم پی اے میر یونس عزیز زہری کا کہنا تھا کہ خضدار میں بھی کافی سردی ہوتی ہے۔ ماہ فروری میں آندھی اور تیز ہوائیں بھی چلتی ہیں۔ 10 لاکھ آبادی پر مشتمل خضدار میں سے اکثر لوگ کراچی، اندرون سندھ اور تربت چلے جاتے ہیں۔ سردی کی وجہ سے ہمارا ووٹ بنک شدید متاثر ہو گا۔

خضدار پی بی 20 وڈھ سے منتخب سابق ایم پی اے میر اکبر مینگل کا کہنا ہے کہ اس بار پارٹی کی جانب سے بی پی 20 سے پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل کے کاغذات نامزدگی جمع ہوئے ہیں۔ ہمارا حلقہ اکثر ان علاقوں پر مشتمل ہے جہاں چاروں طرف پہاڑیاں ہی پہاڑیاں ہیں اور سردی کی شدت شہر کی نسبت یہاں زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے ان علاقوں میں رہنے والے ہمارے ووٹرز کے لیے مشکلات زیادہ ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا ہم چاہتے ہیں کہ ٹرن آؤٹ زیادہ رہے، ہر ایک رائے دہی میں شامل ہو تا کہ واضح ہو جائے کہ عوام کی بھاری اکثریت کس کے ساتھ ہے اور بلوچستان کے عوام کس پارٹی اور کس منشور کو پسند کرتے ہیں۔ یہ الیکشن کے دن ووٹرز کی رائے سے معلوم ہو سکے گا لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ سرکاری سطح پر انتظامات کیے جائیں تا کہ دشوار ترین علاقوں کے لوگ اس عمل میں شریک ہو سکیں۔ اگر وسیع پیمانے پر انتظام نہیں ہوا تو سردی کی بنا پر ووٹرز حق رائے دہی سے محروم رہ جائیں گے۔ اگرچہ ہم اپنے طور پر کوشاں ہیں کہ اس دن سواریوں کا انتظام کریں کہ اپنے اپنے لوگوں کو الیکشن کے عمل میں حصہ دار بنائیں لیکن مقامی انتظامیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ سردی سمیت دیگر عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کریں۔

ڈپٹی کمشنر خضدار محمد عارف زرکون کا کہنا تھا کہ سردی کے پیش نظر پولنگ سٹیشنز کی تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے اور کوشش ہے کہ ہر علاقے میں آبادی کے درمیان پولنگ سٹیشن قائم ہو تا کہ سردی کے موسم میں عوام کو ووٹ دینے کی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

مزیدخبریں