'ووٹ دو ورنہ ملک بدر کر دیں گے'، ہندو ووٹرز دباؤ میں ووٹ ڈالتے ہیں

ضلع کشمور کے رہائشی ایڈووکیٹ فقیر گوکل داس کے مطابق پیپلز پارٹی نے سوائے ووٹ کے حصول کے ہمیں کبھی اہمیت نہیں دی۔ ہماری مجبوری ہے، اگر ہم نے یہاں رہنا ہے تو ہمیں انہی امیدواروں کو ووٹ دینا پڑے گا ورنہ یہ لوگ ہمیں شہر تو کیا ملک بدر بھی کر سکتے ہیں۔

08:21 PM, 4 Jan, 2024

حضور بخش منگی

سیاسی جماعتیں اقلیتی برادری کو عام انتخابات میں صرف ووٹ کے لیے استعمال کرتی ہیں، جبکہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے سینیئر رہنماؤں کو بھی پارٹی میں کسی خاص عہدے پر فائز نہیں کیا جاتا، اسی لیے ضلع کشمور کی سیاسی، کاروباری ہندو اقلیتی اور باگڑی برادری کے رہنماؤں نے سیاسی جماعتوں سے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ سندھ میں مقیم ہندو کہتے ہیں کہ بیس سالوں سے ایک بھی سیاسی جماعت نے ہمیں اسمبلی کی خصوصی نشست نہیں دی ہے۔ اگر الیکشن میں حصہ لیتے ہیں تو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے یا پھر ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے ہمیں اسمبلی کی خصوصی نشست دی جائے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان میں کل رجسٹرڈ ووٹرز 12 کروڑ 21 لاکھ، 96 ہزار 122 ہیں۔ اقلیتی ووٹرز کی تعداد 39 لاکھ، 56 ہزار 336 ہے جن میں ہندو ووٹرز کی تعداد 20 لاکھ 73 ہزار 983، مسیحی ووٹرز کی تعداد 17 لاکھ 3 ہزار 288 جبکہ دیگر اقلیتی ووٹرز کی تعداد 1 لاکھ 74 ہزار 165 ہے۔

دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ضلع کشمور تین تحصیلوں پر مشتمل ہے۔ ان میں کشمور، کندھ کوٹ اور تنگوانی کی تحصیلیں شامل ہیں۔ ضلع کی آبادی ادارہ شماریات کے مطابق سال 2023 کی ڈیجیٹل مردم شماری میں 12 لاکھ 33 ہزار 957 اور ووٹرز کی تعداد 9 لاکھ 94 ہزار 642 ہے۔ سب سے زیادہ کاروباری افراد کا تعلق ہندو اقلیت سے ہے۔

تحریک شناخت کے رہنما اعظم معراج کی معلومات کے مطابق ضلع کشمور میں اقلیتوں کے ووٹرز کی تعداد 23 ہزار 471 ہے۔ کندھ کوٹ تحصیل میں مسیحی ووٹرز 19، قادیانی 2، ہندو 13 ہزار 793، سکھ 60 اور بودھ 4 ہیں۔ تحصیل کشمور میں مسیحی ووٹرز 51، قادیانی 5، ہندو 5 ہزار 752، پارسی 1، سکھ 49 اور بودھ ووٹرز 8 ہیں۔ تحصیل تنگوانی میں مسیحی ووٹرز 4، قادیانی 2، ہندو 3 ہزار 695، سکھ 15 جبکہ بودھ ووٹرز 6 ہیں۔

اعظم معراج کا کہنا ہے یہ اعداد و شمار تحریک شناخت نے شعیب سڈل کمیشن سے خط و خطابت کر کے حاصل کیے ہیں۔ ان کے مطابق ضلع کشمور میں ہندو ووٹرز کی مجموعی تعداد 23 ہزار 471 ہے۔

کاروباری لحاظ سے یہاں زراعت کا بڑا کاروبار ہوتا ہے۔ ہر موسم میں گندم اور چاول کا وسیع کاروبار ہوتا ہے۔ ایشیا کی دوسری بڑی اناج منڈی کندھ کوٹ میں واقع ہے۔ اناج منڈی میں اکثریتی تعداد میں بیوپاری ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔

اناج منڈی کے صدر سیٹھ نند لال نے بتایا کہ ہم سالوں سے یہاں مقیم ہیں، ہمیشہ علاقے کے عوامی نمائندگان کو ووٹ بھی دیتے ہیں اور انہیں سپورٹ بھی کرتے ہیں۔ مگر کسی پارٹی نے آج تک یہ آفر نہیں دی کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کو جنرل نشست سے امیدوار کے طور پر کھڑا کیا جائے۔ ہمیں اقلیت ہونے کی وجہ سے کم تر محسوس کرایا جاتا ہے۔

رائس ملز کے صدر مرلی داس نے کہا کہ ہندو برادری ذوالفقار بھٹو کے دور حکومت سے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیتی آئی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اپنے سرداروں کو اہمیت دی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے ہمیں ہندو ہونے کی وجہ سے پارٹی میں شمولیت کے لائق سمجھا ہے اور نا ہی خصوصی نشست کے لیے کوئی حکم نامہ جاری کیا ہے۔ یہاں ہمیشہ بجارانی، سندرانی، مزاری گروپس نے راج کیا ہے کیوںکہ وہ سردار ہیں۔ وہ ہمیں احساس دلاتے ہیں کہ الیکشن کے دوران صرف ووٹ دیں۔ اگر کوئی ان کے سامنے کھڑا ہوا تو پورے خاندان کی شامت آ جائے گی، اس لیے ہم خاموشی اختیار کرتے ہیں۔

یہاں کی اقلیتوں میں باگڑی برادری بھی شامل ہے۔ باگڑی برادری کا حلقہ این اے 191 اور این اے 192 میں بڑا ووٹ بنک ہے۔ ایڈووکیٹ فقیر گوکل داس باگڑی برادری کے رہنما اور تحصیل کندھ کوٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مینارٹی ونگ کے نائب صدر ہیں۔ ان کے مطابق پارٹی نے سوائے ووٹ کے حصول کے ہمیں کبھی اہمیت دی ہے اور نہ کوئی وعدہ وفا کیا ہے۔ ہماری مجبوری ہے، اگر ہم نے یہاں رہنا ہے تو ہمیں انہی امیدواروں کو ووٹ دینا پڑے گا ورنہ یہ لوگ ہمیں شہر تو کیا ملک بدر بھی کر دیں گے۔

سابق صوبائی وزیر اور این اے 192 سے پیپلز پارٹی کے امیدوار میر شبیر علی خان بجارانی نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کیا ہے۔ سکیورٹی انتظامات کر کے مندروں کی حفاظت کو یقینی بناتے ہیں۔ میرے خیال میں پارٹی چیئرمین کو اقلیتوں کی خصوصی نشستوں پر غور کرنا چاہیے کیوںکہ اقلیتیں بھی اسی ملک کی باسی ہیں۔ ان کا پورا حق ہے کہ وہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے اسمبلیوں کا حصہ بنیں۔

ایڈووکیٹ عبدالغنی بجارانی نے کہا آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے 10 سیٹیں مختص ہیں اور آرٹیکل 106 کے تحت صوبوں میں 24 سیٹیں مختص ہیں۔ سندھ اسمبلی میں 9، پنجاب میں 8، بلوچستان میں 3، خیبر پختونخوا میں 4 سیٹیں اقلیتوں کے لیے مخصوص ہیں۔ اسی طرح ایوان بالا یعنی سینیٹ میں اقلیتی برادری کے لیے 4 نشستیں مختص ہیں۔

سنتوش اگروال کا کہنا ہے کہ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص اگر الیکشن میں حصہ لیتا ہے تو اسے یا تو ڈاکوؤں کے ذریعے اغوا کروا لیا جاتا ہے یا پھر بھارت جانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ ضلع کے افسران بھی عوامی نمائندگان کے رکھے ہوتے ہیں۔ ہم اگر کسی سے معاشی صورت حال پر بات کرتے ہیں تو ہمیں مختلف طریقوں سے دھمکایا جاتا ہے۔ اغوا کر کے بدامنی پھیلائی جاتی ہے۔ مجبور ہو کر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے کئی لوگ ہجرت کر کے بھارت چلے گئے ہیں۔ یہی صورت حال رہی تو ایک دن ہم بھی ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما ڈاکٹر میھر چند کا کہنا ہے میں نے ہر بار پارٹی کو خصوصی نشست کے لیے درخواست دی ہے مگر کوئی رسپانس نہیں ملا۔ کشمور سے مکیش چاولا پارٹی کا چہیتا ہے اور ہر بار اسی کو نشست ملتی ہے۔

ترجمان پیپلز پارٹی سندھ نثار کھوڑو کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی پاکستان کی واحد جماعت ہے جس نے ہمیشہ اقلیتوں، خاص طور پر اقلیتی خواتین کو جنرل نشست کے لیے اہمیت دی ہے۔ کسی اور سیاسی جماعت میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ضلع کشمور سے کبھی ایسی کوئی درخواست پارٹی کو موصول نہیں ہوئی۔

سیاست پر جتنا اکثریتی برادری کا حق ہے، اتنا ہی اقلیتی برادری کا بھی حق ہے۔ اس لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اقلیتوں کی خصوصی نشستوں کے لیے دلچسپی کا اظہار کرنا چاہیے۔

مزیدخبریں