بالی ووڈ کو رقص کے نئے کمال پر پہنچانے والی سروج خان: انڈسٹری ہمیشہ انکی قرض دار رہے گی

12:05 PM, 4 Jul, 2020

نیا دور
22 نومبر 1948 کو بمبئی میں پیدا ہونے والی سروج خان 3 جولائی 2020 کو 71 برس کی عمر میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ ان کے ساتھ ہی ہندوستانی سنیما کا ایک اور باب بند ہوا۔ یہ ناچتا گاتا باب جس نے اس انڈسٹری کو اس کے چند یادگار ترین گانے دیے، سروج خان ہی کی بدولت تھا۔ سروج خان نے ہندی سنیما میں کوریوگرافی کو ایک نئی جہت دی۔ ان سے پہلے چند مخصوص ڈانسرز بہت خوبصورت ڈانس کیا کرتی تھیں لیکن بیٹ کے ساتھ ڈانس اور ڈانس کے ذریعے فلم کے سنگیت کو سپر ہٹ کروانے کا ہنر اس انڈسٹری کو سروج خان نے سکھایا۔ اپنے کریئر میں انہوں نے 2000 سے زائد گانوں کا ناچ تشکیل دیا اور بجا طور پر ہندوستان میں کوریوگرافی کی ماں کہلائیں۔

سروج خان ایک کھتری سکھ گھرانے میں پیدا ہوئیں اور پیدائش کے وقت ان کا نام نرملا ناگ پال تھا اور ان کے والدین ایک سال قبل ہی پاکستان کے شمال مشرقی سرحدی صوبہ، جو اب خیبر پختونخوا کہلاتا ہے، سے بمبئی منتقل ہو گئے تھے۔ نرملا نے بطور چائلڈ آرٹسٹ اپنی پہلی فلم نذرانہ میں کام کیا اور 1950 کی دہائی کے اواخر میں ہی بیک گراؤنڈ ڈانسر کا کام شروع کر دیا تھا۔

1961 میں، صرف 13 برس کی عمر میں ان کی شادی ایک اور کوریوگرافر سوہن لال سے ہو گئی جو کہ اس وقت 43 برس کے تھے اور پہلے سے شادی شدہ تھے۔ سروج خان کو اس شادی کا بالکل علم نہیں تھا اور نہ ہی وہ اس حقیقت سے باخبر تھیں کہ سوہن لال کے پہلی بیوی سے چار بچے بھی ہیں۔ ان کے درمیان طلاق کے بعد سروج خان نے ایک کاروباری شخصیت سردار روشن خان سے 1975 میں شادی کر لی اور تب ہی ان کا نام سروج خان ہو گیا۔ ان دونوں کی ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام سکینا خان ہے اور وہ دبئی میں اپنا ایک ڈانس انسٹیٹیوٹ چلاتی ہیں۔

سروج خان نے بطور کوریوگرافر اپنی پہلی فلم 1974 میں کی۔ اس فلم کا نام گیتا میرا نام تھا۔ سادھنا، سنیل دت اور فیروز خان کی سٹار کاسٹ کے ساتھ بنی یہ فلم باکس آفس پر تو خوب کامیاب ہوئی لیکن اس نے سروج خان کے نام کو وہ بھاگ نہیں لگائے جو ابھی ان کو لگنا باقی تھے۔

سروج خان کے عروج کو شاید سری دیوی کا انتظار تھا جنہوں نے سروج خان کی کوریوگرافی میں مہارت میں حقیقت کا رنگ بھرا۔ 1986 میں ناگن فلم میں سری دیوی نے ناگن کا کردار ادا کیا اور اس فلم کے گانوں میں ان کا ناگن ناچ بہت مشہور ہوا۔ اگلے ہی برس سری دیوی نے مسٹر انڈیا کے گانے ہوا ہوائی میں سروج خان کی کوریوگرافی پر خوب داد وصول کی اور پھر 1989 کی فلم چاندنی میں بھی سروج خان اور سری دیوی کی جوڑی نے خوب رنگ جمایا۔

اسی دور میں کہ جب سری دیوی کا عروج ابھی جاری ہی تھی، مادھوری ڈکشت کا عروج بھی شروع ہوا ہی چاہتا تھا۔ سروج خان نے ان کی فلم تیزاب میں گانے ’ایک، دو، تین‘ کا ڈانس ایسا ترتیب دیا کہ اگلے کئی سال اور کامیابی کی درجنوں منازل طے کرنے کے بعد بھی مادھوری ڈکشت فلمی رسالوں میں ایک دو تین گرل کے نام سے ہی جانی جاتی تھیں۔ اس گانے پر انہیں فلم فیئر ایوارڈ بھی ملا۔ یہ ان کے آٹھ فلم فیئر ایوارڈز میں سے پہلا تھا۔ اگلے برس سروج خان نے ایک بار پھر یہ میدان مار لیا۔ اس بار ان کی جوڑی دار سری دیوی تھیں اور فلم تھی چالباز۔ اور پھر 1991 میں سیلاب فلم کے گانے ہم کو آج کل ہے انتظار کے لئے بیسٹ کوریوگرافر کا ایوارڈ جیت کر انہوں نے ہیٹ ٹرک مکمل کر لی۔

مادھوری ڈکشت کے ساتھ ان کی جوڑی 2003 تک قائم رہی۔ لیکن اسی دوران ان کی ایک اور جوڑی دار ایشویریہ رائے بھی بن گئیں۔ 1993 میں بیٹا اور 1994 میں فلم کھل نائیک کے لئے مادھوری ڈکشت کی بدولت بہترین کوریوگرافی کا ایوارڈ لینے کے بعد 2000 میں انہوں نے ہم دل دے چکے صنم میں ایشویریہ رائے کے ساتھ یہ ایوارڈ جیتا۔ اس فلم کے گانے ’نمبوڑا‘ اور ’ڈھول باجے‘ کوریوگرافی اور فلمائے جانے کے حساب سے اپنی مثال آپ ہیں۔ اور پھر 2002 میں سنجے لیلا بھنسالی نے اپنی اگلی فلم میں ان تینوں یعنی مادھوری ڈکشت، ایشویریہ رائے اور سروج خان کو اکٹھا کر دیا جب فلم دیوداس میں ان تینوں نے اپنی کلا کے جوہر دکھائے۔ ’ڈولا رے‘ میں دیوداس کی دونوں محبوباؤں چندر مکھی اور پارو کے ملاپ کو سروج خان کی کوریوگرافی نے امر کر دیا۔

اس کے لئے بھی بہترین کوریوگرافی کا ایوارڈ لینے کے بعد 2008 میں ایک بار پھر سروج خان اور ایشویریہ رائے کی جوڑی نے گرو کے لئے فلم فیئر کا ایوارڈ لیا۔ 1988 سے 2008 کے درمیان 20 برس میں 8 ایوارڈز لینے کے بعد سروج خان بھارتی ٹی وی چینلز پر زیادہ نظر آنے لگیں جہاں یہ چھوٹے بچوں اور نوجوان ڈانسرز کے ہنر کو جج کرنے کا کام کرتی رہیں اور ان پروگرامز میں انہوں نے کئی مرتبہ اپنے ہنر کا جلوہ بھی دکھایا جو ان کے چاہنے والوں اور دیکھنے والوں کو ہمیشہ حیران کر دیتا کہ 60 سال سے زیادہ کی عمر میں بھی وہ ایسے step کر سکتی تھیں جو کسی نوجوان لڑکی کے لئے کرنا بھی کٹھن ہوگا۔

2003، 2006 اور 2008 میں تین مرتبہ نیشنل فلم ایوارڈز میں بہترین کوریوگرافی کا ایوارڈ جیتنے والی سروج خان کو امیرکن کوریوگرافی ایوارڈ بھی ملا۔ 2001 میں آنے والی فلم لگان میں کوریوگرافی کرنے پر انہیں Outstanding Achievement Award سے نوازا گیا۔ یہ انیسویں صدی کے بیک ڈراپ میں لکھی گئی ایک افسانوی کہانی پر مبنی فلم تھی جس میں سروج خان نے period movie کے لحاظ سے خصوصی کوریوگرافی کی تھی۔

ان کاآخری ایوارڈ 2011 میں کوریوگرافی میں شاندار خدمات انجام دینے پر کلاکار اچیور ایوارڈ دیا گیا۔ ان کی کوریوگرافی میں بنی آخری فلم کلنک تھی جو کہ 2019 میں ریلیز ہوئی۔ 3 جولائی 2020 کو سروج خان اپنے کروڑوں چاہنے والوں کو الوداع کہہ کر رخصت ہو گئیں۔
مزیدخبریں