ڈاکٹر نے تو یہاں تک کہا کہ اگر ان کے پاس کوئی پروڈیوسر آیا تو وہ سروج خان کی سفارش ضرور کریں گے اور ایسا ہی ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سروج خان نے فلم ’نذرانہ‘ میں صرف تین برس کی عمر میں اپنے رقص کے جوہر دکھائے۔ جیسے جیسے وہ لڑکپن میں داخل ہوئیں ان پر فلموں کی برسات ہونے لگی، سروج خان بیک گراؤنڈ رقاصاؤں میں شامل ہوتیں اور اس ساری محنت کے نتیجے میں جو بھی معمولی معاوضہ ملتا، اس سے سروج کے گھر کی گاڑی کھینچی جانے لگی۔
جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے رکھتے وہ کورس ڈانسرز میں سب سے ممتاز رہنے لگیں۔ مدھو بالا اور اشوک کمار کی فلم ’ہاوڑا برج‘ کے مشہور گیت ’آئیے مہربان‘ میں بھی وہ گروپ ڈانسرز تھیں۔ جن کے منجھے ہوئے رقص کو دیکھ کر اس وقت کے شہرت یافتہ ڈانس ڈائریکٹر بی سوہن لال نے انہیں گروپ ڈانسرز سے نکال کر اپنا اسٹنٹ بنا لیا۔ جس کے بعد سروج خان کی صلاحیتوں میں اور نکھار آنے لگا۔ اسی دوران انہوں نے بی سوہن لال سے عمروں میں واضح فرق کے باوجود بیاہ رچا لیا۔
1964 میں جب ان کے شوہر بی سوہن لال، راج کپور کی فلم ’سنگم‘ کے ایک گیت کے لیے یورپ گئے ہوئے تھے تو بالی وڈ میں رہتے ہوئے کئی فلم سازوں نے سروج پر زور دیا کہ وہ بی سوہن لال کی زیر تکمیل فلموں کے گیتوں کی کوریگرافری کریں، ابتدا میں سروج نے معذرت کرلی لیکن دباؤ بڑھا تو انہوں نے ’دل ہی تو ہے‘ کے ایک گیت ’نگاہیں ملانے کو جی چاہتا ہے‘ میں نوتن کو پہلی بار تن تنہا اپنے اشاروں پر نچایا۔ اس گیت میں نوتن کی فرمائش پر خود سروج ان کے برابر بیٹھی رہیں، جنہیں دیکھ دیکھ کر اداکارہ نے مختلف اداؤں کی نقل بھی کی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ گانا اپنے بول سے زیادہ رقص کی وجہ سے مشہور ہوا تو سروج کا بھی ہر جانب چرچا ہونے لگا۔ لیکن اسی دوران ان کے اپنے شوہر بی سوہن لال سے اختلافات جنم لینے لگے اور یہ شادی علیحدگی پر ختم ہوئی۔ یہ حسن اتفاق ہی ہے کہ 1966 میں سروج خان کی زندگی میں سردار روشن خان آئے۔ جن سے ازدواجی تعلق ان کے مرتے دم تک قائم رہا۔ سردار روشن خان کی شریک سفر بننے کے لیے سروج نے اسلام قبول کیا اور فلموں میں سروج خان کے نام سے کوریگرافری کرنے لگیں۔
سروج خان کو پہلی بار جس فلم میں ڈانس ڈائر یکٹر بننے کا موقع ملا وہ 1974 میں ریلیز ہونے والی ’گیتا میرا نام‘ تھی۔ جس کی ہیروئن اور ڈائریکٹر سادھنا تھیں۔ اس فلم کے بعد سروج خان کی مقبولیت کا نیا دور شروع ہوا۔ فلم ’ڈاکٹر ودیا‘ کے گیت ’پون دیوانی نہ مانے‘ میں ان کے اسٹیپ اس قدر زبردست رہے کہ ہیروئن وجنتی مالا نے 21 روپے نکال کر انہیں تھماتے ہوئے کہا کہ یہ اسٹیپ وہ کبھی بھی نہ کر پاتیں اگر سروج نہ ہوتیں۔
سروج خان کی مقبولیت اور شہرت کا سفر 1983 میں ریلیز ہونے والی سبھاش گھئی کی فلم ’ہیرو‘ سے ہوا۔ جس کے بعد انہوں نے تیزاب، مسٹر انڈیا، چاندنی، رام لکھن، کھل نائیک ، نگینہ، دل والے دلہنیا لے جائیں گے، لگان، ویر زارا اور بے شمار فلموں کے لیے کوریگرافری کی۔ مادھوری ڈکشٹ کو بالی وڈ میں بلند مقام دلانے میں سروج خان کا کردار اہم رہا۔ ایک دور ایسا بھی رہا جب سری دیوی اور مادھوری ڈکشٹ کے درمیان فلموں کا نہیں بلکہ یہ مقابلہ ہوتا کہ کون سروج خان کے بتائے ہوئے اسٹیپ کو بہتر سے بہتر کرسکتا ہے۔
’مسٹر انڈیا‘ کے گیت ’ہوا ہوائی‘ کو جب سری دیوی نے پیش کیا تو اس کے کچھ ہی مہینوں میں ’تیزاب‘ میں مادھوری ڈکشٹ پر فلمایا گیت ’ایک دو تین‘ سری دیوی سے زیادہ مقبول ہوا۔ جس پر سری دیوی آگ بگولہ ہوگئیں۔ جن کا کہنا تھا کہ سروج خان نے اپنی من پسند ہیروئن کو ان سے اچھے رقص جان بوجھ کر کرائے اور اسی بنا پر سروج اور سری دیوی کے درمیان لگ بھگ سال بھر کے لیے بات چیت بند رہی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں سروج خان کی من پسند اور چہیتی اداکارہ کوئی اور نہیں مادھوری ڈکشٹ ہی رہیں۔ اور یہ اتفاق ہی ہے کہ سروج خان کے کیرئیر کی آخری فلم ’کلنک‘ بھی مادھوری ڈکشٹ کے ساتھ ہی تھی۔
سروج خان نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ انہوں نے اسلام اس لیے قبول کیا کہ وہ خواب میں مرحومہ بیٹی کو مسجد میں دیکھتیں، جو انہیں بلا رہی ہوتی۔ سروج خان کے مطابق یہ خواب ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور جبھی انہوں نے ایک عالم سے اس حوالے سے رہنمائی لی تو انہوں نے انہیں مسلمان ہونے کا مشورہ دیا۔
تین بار قومی ایوارڈز اور آٹھ فلم فئیر ایوارڈز حاصل کرنے والی سروج خان کے بارے میں مشہور تھا کہ انہیں غصہ بہت جلدی آجاتا ہے۔ ایک بار روینہ ٹنڈن نے انہیں سلام نہیں کیا تو انہوں نے سیٹ پر سب کے سامنے انہیں کھری کھری سنا دیں اور آئندہ ان کے ساتھ کسی فلم کی کوریگرافری کے لیے معذرت کرلی۔ اسی طرح 71 برس کی سروج خان کو سلمان خان پر بھی جلال آچکا ہے، جب انہوں نے معذور بچی کی خواہش پر انہیں سیل فون پر ’ہیلو‘ تک کہنا گوارہ نہیں کیا۔ اس اقدام پر سروج، سلمان خان پر برس پڑی تھیں جبکہ فرخ خان نے جب ’ہیپی نیو ائیر‘ میں سروج خان کی مشابہت رکھنے والے کردار کو بطور مذاق پیش کیا تو سروج خان نے برملا کہا کہ جب چھوٹے، بڑوں کا احترام نہیں کریں گے تو معاشرے میں اچھی مثال قائم نہیں ہوگی۔