15 سالہ جڑواں بہنوں زینب عمر اور زنیرہ عمر نے اس وقت بات کی جب صوفیہ مرزا نے دبئی میں مقیم نارویجن پاکستانی فاروق ظہور سے اپنی دو بیٹیوں کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے پریس کانفرنس کی، جو پاکستان اور جنوب مشرقی ایشیا کیلئے لائبیریا کے سفیر ہیں۔
42 سالہ صوفیہ مرزا نے دی نیوز اور جیو کی تحقیقات میں انکشاف کے بعد پریس کانفرنس کی جس میں بتایا گیا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے عمران خان کے سابق وزیر احتساب اور وزیر داخلہ شہزاد اکبر کی ہدایت پر صوفیہ مرزا کی شکایت پر عمر فاروق ظہور کو نشانہ بنایا۔ جس نے اپنے سابق شوہر کے خلاف خوش بخت مرزا کے نام سے شکایت درج کروائی۔ یہ ظاہر کئے بغیر کہ وہ اپنے سابق شوہر کے خلاف شکایت کر رہی ہے۔
ایف آئی اے نے مسٹر ظہور کے خلاف تین مقدمات میں تفتیش کی اور انٹرپول کے ذریعے ریڈ وارنٹ جاری کروائے جو پہلے ہی ثبوت کی کمی کی وجہ سے بند کر دیے گئے تھے جس میں نیب نے انہیں کلیئر کر دیا تھا۔
دی نیوز اور جیو کی رپورٹ کو پاکستانی میڈیا نے بڑے پیمانے پر اٹھایا۔ جڑواں بہنوں نے پریس کانفرنس میں اپنی والدہ خوش بخت مرزا (جو شوبز انڈسٹری میں صوفیہ مرز نام سے مشہور ہیں) کے دعوؤں کی نفی کی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی ماڈل والدہ پبلسٹی حاصل کرنے اور میڈیا کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے میڈیا ٹاک کر رہی تھیں۔ صوفیہ مرزا کی بیٹیوں کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ گذشتہ چند سالوں میں متعدد بار دبئی آئیں۔ ہم نے اپنی والدہ سے درخواست کی کہ وہ جب دبئی میں ہوں تو ہمیں دیکھیں لیکن انہوں نے ہمیں نظر انداز کیا، اپنی ماڈلنگ شوٹ کی اور واپس چلی گئیں۔
صوفیہ مرزا کی بیٹیوں کا کہنا تھا کہ وہ ٹی وی پر یہ الزام لگاتی دکھائی دیتی ہیں کہ وہ ہمارے والد کے خلاف مہم چلانے کیلئے صحت یاب ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ وہ ہماری پرواہ نہیں کرتیں۔ وہ صرف اپنی تصویروں اور میڈیا پبلسٹی کی فکر کرتی ہیں۔
زینب عمر اور زنیرہ عمر نے کہا کہ انہوں نے دبئی میں اپنے والد کے ساتھ رہنے کا انتخاب کیا ہے اور وہ ان کے ساتھ خوشی اور اپنی مرضی سے رہ رہی ہیں۔ ہماری ماں پیسے کے پیچھے ہے۔ انہوں نے ہمیں سیف کھولنے، پاسپورٹ اور پیسے لینے اور گھر سے بھاگنے کی ترغیب دی۔ یہ ان کی خود غرضی ہے۔
اس اشاعت میں دونوں بہنوں کی طرف سے عدالت کو فراہم کیے گئے سابقہ تحریری حلف نامے کی کاپی بھی ہے، جس میں ان کی والدہ پر سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں۔
تحریری حلف نامے میں، جس پر دونوں بہنوں نے الگ الگ دستخط کئے لیکن ایک ہی بیان کو لے کر، جڑواں بہنوں نے کہا کہ وہ دبئی میں اپنے والد کے ساتھ 12 سال سے زیادہ عرصے سے خوشی خوشی رہ رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ نے ان سے ملنے کے بجائے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا سہارا لیا اور کئی سالوں سے وہ ’’عوامی طور پر مواد اپ لوڈ اور بیانات دے رہی ہیں‘‘ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ والد نے ان کی مرضی کے خلاف دونوں بیٹیوں کو زبردستی رکھا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی والدہ کے اعمال نے ان کے ذہنی سکون کو ’’برباد‘‘ کیا ہے اور ہماری ذہنی اور نفسیاتی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے کیونکہ میڈیا سے متعلق مواد ہر کسی کیلئے قابل رسائی ہے۔
زینب عمر نے لکھا کہ مجھے اور میری بہن کو اپنے سکولوں میں انتہائی شرمندگی اور ہراساں کئے جانے کا سامنا کرنا پڑا اور ہم اتنے پریشان تھے کہ ہمارے والد نے ہمیں اپنی والدہ کے بیانات کے اثرات سے بچانے کیلئے تین بار ہمارے سکول بدلنے کا انتظام کیا۔
زینب عمر کے بیان حلفی میں لکھا گیا ہے کہ میں اپنی والدہ کے تمام بے بنیاد الزامات کی نفی کرنا چاہتی ہوں۔ ہم یہاں ایک صحت مند، خوش، پرامن اور بامقصد زندگی گزار رہے ہیں اور ہماری تمام ضروریات بشمول رہائش، مطالعہ، کھانا، تفریح مکمل طور پر پوری ہوتی ہیں۔ ہمارے والد ہمارے ساتھ اکثر وقت گزارتے ہیں اور ہم اپنے والد کے ساتھ خوشی سے رہ رہے ہیں۔
حلف نامے میں سے ایک میں مزید کہا گیا کہ حال ہی میں ہمیں اپنی والدہ (محترمہ خوش بخت مرزا) کی طرف سے عوامی تذلیل کی ایک اور لہر کا سامنا کرنا پڑا جب وہ یلو وارنٹ جاری کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ ہمارے والد نے ہمیں یقین دلانے یا خیریت کا یقین دلانے کی کوشش کی لیکن میں اور میری بہن نے اپنے دوستوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی جو پوچھتے ہیں کہ کیا ہمیں ہمارے دوست نے ہماری ماں سے چھپا رکھا ہے، میں اس ذلت اور ردعمل سے تنگ آ گئی ہوں جس کا مجھے اور میرے والد کو سامنا کرنا پڑتا ہے، میں اس ذلت اور ردعمل سے تھک گئی ہوں جس کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں یہ جان کر دل شکستہ ہوں کہ ہماری والدہ، ہمارے صحیح ٹھکانے سے واقف ہونے کے باوجود جب سے انہوں نے ہمیں میل کے ذریعے چند تحائف بھیجے تھے، ہمیں ایک پیادے کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور سب کو بتایا کہ ہمیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے اور میری بہن کو ماں کے رویے کی طرف سے اذیت ہوئی، اور ہم نے ان سے پوچھا کہ وہ ہماری زندگیوں اور سکون کو کیوں متزلزل کر رہی ہیں۔ ان کے پاس ہمارے رابطہ نمبر اور ایڈریس موجود ہیں لیکن پھر بھی جھوٹ بولا اور ہمیں لاپتہ قرار دے دیا، بغیر کسی پرواہ کے کہ اس سے ہم دونوں پر کیا اثر ہو گا۔
حلف نامے میں مزید کہا گیا کہ میں اور میری بہن اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں ہمیں جسمانی طور پر اس حقیقی بدسلوکی کا سامنا نہ کرنا پڑے جسے ہماری والدہ نے اپنے عوامی بیانات میں پیش کیا ہے۔
میں حلف نامہ کے ذریعے یہ کہتی ہوں کہ میں اپنے والد کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں اور نہ تو اپنی والدہ کے ساتھ ملنا چاہتی ہوں اور نہ ہی رہنا چاہتی ہوں کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ مجھے یا میری بہن کومزید کوئی پریشانی اور صدمہ پہنچے۔
دونوں بہنوں نے اپنے حلف ناموں میں پیشکش کی کہ وہ اپنے بیانات سکائپ یا کسی دوسرے الیکٹرانک موڈ کے ذریعے ریکارڈ کرانے کیلئے تیار ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ بغیر کسی جبر کے بیانات دے رہی ہیں۔
عدالتی کاغذات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ عمر فاروق ظہور نے عدالت کو بارہا پیشکش کی کہ وہ محترمہ خوش بخت مرزا کی بیٹیوں زینب عمر اور زنیرہ عمر سے ملاقات کا انتظام کرنے کیلئے تیار ہیں جبکہ محترمہ خوش بخت مرزا کے متحدہ عرب امارات کے دورے کے دوران ان کے سفر اور رہائش کا خرچہ بھی برداشت کرنے کو تیار ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے مارچ 2013 کے ایک عدالتی حکم کے جواب میں، عمر ظہور نے محترمہ خوش بخت مرزا کو 1000000 روپے کی بھاری رقم ادا کی تاکہ وہ متحدہ عرب امارات کا سفر کرکے اپنی بیٹیوں سے مل سکیں۔
وزارت خارجہ نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت پر اسے 15000 درہم کی رقم بطور مالی امداد بھی ادا کی تاکہ وہ متحدہ عرب امارات میں اپنی مرضی کے وکیل کو متحدہ عرب امارات کی عدالتوں کے سامنے بیٹیوں کی تحویل کا کیس لڑ سکے۔ لیکن صوفیہ مرزا نے کوئی مقدمہ درج نہیں کیا۔
صوفیہ مرزا سے جواب کیلئے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے اپنی جڑواں بیٹیوں کے بیانات اور الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا۔