سالوں سے جرم پر معافی تو کجا جرم سے کھلم کھلا انکاری ہونے والے اور جمہوری نظام کے قانونی سربراہ کو اپنی بُولی سمجھا کے بھاشن دینے والے کیسے معافی مانگیں گے؟ البتہ ن لیگ کے مشاہد صاحب کا اپنی مخلوط حکومت کے وزیر داخلہ اور وزیر قانون کو چند جملوں میں ثبوت فراہم کرنے کے عمل کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
اس بات سے قطع نظر کہ جرم کو بار بار تاریخ میں دہرا کے لکھا گیا ہے لیکن پھر بھی رانا ثناء اللہ اور راجہ بشارت کی ترجمانی سے انکاری مشاہد حسین کا مشکور ہوں۔
مشاہد صاحب گہری شام کو سوچنے اور اعدادوشمار اگرچہ میڈیا کی کِرپّا پر آپ یکجا نہیں کر سکتے کہ قائداعظم یونیورسٹی، نیشنل پریس کلب اور ایرڈ یونیورسٹی کے باہر ہر بلوچ طلبہ کی ہراسگی، خوف، نعرے، تشدد کی رواداد سناتے رہے ہیں۔ البتہ اسد طور اور مطیع اللہ جان کے کیمروں میں محفوظ ہیں۔ موقع ملا تو ان کے یو ٹیوب چیلنز کا ویور بن کے ایک اور ویو بڑھا دیجئے گا۔
حفیظ بلوچ سے معافی مانگ کر کیا دو ہزار بائیس کے ان چار مہینوں پر معافی مانگنے کی جرات ادارے کر سکتے ہیں جو حفیظ پر جھوٹ کے بادل بن کر صبح وشام گرج چمک سے برستے اور حفیظ کی نفسیات کو خوف سے تر کرتے تھے؟
باغبانہ خضدار کے غریب اور علم کے ستائے بچوں سے ادارہ معافی مانگے گا جن کی دید اپنے بے گناہ استاد کو گھسیٹتے ہوئے اور استاد کی حرمت کو پامال ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور چار مہینوں تک چراغِ علم سے دور رکھے بچوں کا ازالہ کون کرے گا؟
اسلام آباد ڈی چوک مارچ کرنے والے بلوچ طلبہ سے کون معافی کا طلبگار ہو جو حفیظ کے لیے انصاف مانگ رہے تھے اور ریاستی مشینری کی وحشیت کا نشانہ بنے۔ لاٹھی چارج اور پولیس کے لاٹھی چارج کے ستائے طلبہ سے کون اور کب معافی مانگے گا؟
تئیس دن تک خوف کے جنگل میں، اسلام آباد پریس کلب کے احاطے میں کیمپ لگائے بیٹھے بلوچ سے کون معافی مانگے گا؟ بارش سے تَر، بے یارومددگار طلبہ سے کون معافی مانگے گا؟ تئیس دنوں کی تعلیم واپس کون کرے گا اور پروفائلنگ و ہراساں کرنے کی معافی کون لے گا؟
حفیظ بلوچ کی سراغ لگاتے لگاتے اسلام آباد پریس کلب کے باہر آنسو ٹپکاتے باپ حاجی حسن کے درد، آنسو، پریشانی اور کرب کا ازالہ کون کس سے کرے گا؟ باغبانہ خضدار میں ایک گھر جو اجڑا، اس کی معافی کس کے کھاتے میں جائے گی؟
اداروں کو اُس دن معافی اور احتساب کے زمرے میں کیوں نہیں لایا گیا جب بلوچ طلبہ کی ہراسگی کو پنڈی اور لاہور تک بلا ججھک پھیلایا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے باہر بینرز اٹھائے، دن رات بیٹھے طلبہ کے سامنے کون ہاتھ باندھے؟
مشاہد صاحب، ادارے معافی سے پہلے ایرڈ یونیورسٹی کے فیروز بلوچ کی بے گناہی و خوفِ قلم کو تقویت کیوں دے رہے ہیں؟ فیروز آج تک لاپتہ اور ایرڈ یونیورسٹی کے باہر خوف کے سائے تلے چار دن تک بلوچ طلبہ بیٹھے رہے لیکن فیروز آج تک لاپتہ ہے۔
معافی کے اعدادوشمار میں جب حفیظ بلوچ گِنے جائیں تو معافی مانگنے والے ہی کم پڑ جائیں۔ البتہ فزکس کے ساتھ انصاف کون کرے؟ وہی فزکس جو کسی حافظے میں چالیس دن لاپتہ اور باقی اوقات ڈیرہ مراد جمالی کے سنٹرل جیل میں گزارتا رہا اور خوف سے بھری حافظے میں گھٹتا رہا۔
جس کے بیگ میں فزکس کی کتاب سفر کرتی تھی۔ اوستہ محمد پولیس نے اس میں نٹ بولٹ اور باردو تلاش کئے اور تین مہینوں تک اُسی باردو کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے اذیت حفیظ اور فزکس نے کاٹے اور پھر حسبِ معمول کیس بنا ثبوت نکلا۔
جج صاحب نہیں سوچتے ہونگے کہ حفیظ جیسوں کے لیے قانون کی کوئی شق میں ترمیم کی جائے۔ ایسا قانون کہ بے گناہ کو گناہگار بنانے والوں کو گناہگار سمجھا جائے۔ انہیں سزا دی جائے۔ حفیظ کو مجرم کہنے والے ملزم نہ بن جائیں تو یہ ان کے لیے حوصلہ افزائی نہیں؟
حفیظ نے نسابی کتب میں افسانوی ریاست کو ماں جیسی بنتے پڑھا ہوگا۔ لیکن جس حقیقی ریاست کو چار مہینوں تک جو جیل میں پڑھا۔ اس میں ماں جیسی خوبی اپنی جگہ خامی بھی نہیں تھی۔
سوال تو بنتا ہوگا کہ حفیظ کو جاننے والی ہر نسل کے پاس ریاست کی تعریف کیا ہوگی؟ ریاستی امور چلانے والی پارلیمان کے سینیٹر اگر مدعا حفیظ اٹھائے تو انفرادی ہے۔ آج تک انہیں معلوم نہ ہو سکا کہ مسئلہ کیا ہے۔
حفیظ اجتماعی نسلی پروفائلنگ کا وکٹم ہے جس کی شاخیں پنڈی گئیں تو فیروز مجرم بن گیا جو آج تک نہ زندہ ہے اور نہ مردہ، سب کچھ لاپتہ ہے۔
مشاہد صاحب حفیظ کے لیے احتساب کی بات کر رہے تھے، بہرحال پنڈی کی ایرڈ یونیورسٹی اور نیشنل پریس کلب کے باہر کیمپ انہیں نظر آیا اور نہ ہی سوشل میڈیا میں پوسٹرز، جن پر درج تھا "سٹاپ ہراسنگ بلوچ سٹوڈنٹس"۔
بلوچ طلبہ کا مطالبہ اجتماعی تھا اور اب بھی ہے۔ حفیظ اجتماعی نسلی فروفائلنگ کا وکٹم ہے اور حفیظ کے لیے احتساب اگر ہوگا تو اجتماعی۔ انفرادی احتساب کے تحت حفیظ با عزت بری ہوگئے ہیں اور اجتماعی طور پر نسلی ہراسگی آج بھی اپنی جگہ سے ایک قدم نہیں بڑھی۔ فیض صاحب دہائیوں پہلے کہا کرتے تھے۔ " سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد"۔ حکمرانوں کی کرپا سے آج تک یہ سطور زندہ و تابندہ ہیں۔