لوگ کراچی یونیورسٹی میں سیاست کے نام سے ڈرتے ہیں۔ ہمیں ایک سیاسی ماحول پیدا کرنا چاہیے، کیونکہ ہمارے مسائل کا حل تلاش کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم سیاسی بنیں۔ اب بات سیاسی جماعتوں یا سیاسی لوگوں کے اوپر کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ چند ایسے لوگ ہیں جو سیاست کو سمجھتے ہیں اور انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ ہمارے سارے مسائل کا حل سیاست میں ہے۔
ہمیں مل کر ایک سیاسی تحریک شروع کرنی چاہیے۔ جس میں کراچی سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے ساتھیوں کیساتھ مل کر چلیں اور ہاسٹل سمیت جو دوسرے مسائل ہیں ان کو ابھارنا چاہیے۔
کراچی یونیورسٹی میں زیادہ تر وہ لڑکے سیاست کو پروان چڑھاتے ہیں جو دوسرے شہروں سے آتے ہیں۔ ایک بات ہمیں ذہن نشین کرنی ہے کہ کسی بھی مذہبی تنظیم میں کام نہیں کرنا چاہیے۔ ہم سیکیولر خیال کے یا کسی مارکسی نظریات یا نیشنلسٹ بن سکتے ہیں۔
ان طلبہ کو سیاست کی طرف لئے آئیں جو شہر سے تعلق رکھتے ہوں۔ ایک ساتھ مل کر علمی ادبی، سائنسی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے۔ اور رنگ نسل ذات پات کو پیچھے چھوڑنا ہوگا۔
آج اگر ہم خاموش ہو گئے تو صدیوں تک ہمارے نسلی اس ٹارچر کو جھیلتی رہیں گی۔ ہمیں اپنی یونیورسٹی کو سٹوڈنٹ پولیٹکس کا مرکز بنانا ہوگا۔ اور ہم اپنی جنگ پرامن طریقے سے لڑیں گے۔ اور اس کو امن شانتی سے جیتیں گے۔ ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا ہے، ورنہ تاریخ ہماری خاموشی کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔
جب ہمارے درمیان ساری تلخیاں ختم ہو جائیں گی، تو تب ہمارے سنہرے وقت کا آغاز ہوگا۔ مذہبی گروہوں سے دوری رکھنی چاہیے۔ میں مذہب کے خلاف بات نہیں کر رہا بلکہ کے ان لوگوں سے دوری اختیار کرنے کے لئے کہہ رہا ہوں، جن کا کام لوگوں کو خراب کرنا ہے۔ اس لئے یونیورسٹی کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ آپ نیشنلسٹ بنیں یا کسی دوسرے نظریے کو اپنا لیں۔
طلبہ یونیورسٹی میں جتنا بھی وقت گزاریں، خود کو سیاسی لوگوں جیسا بنائیں کرو اور اپنے جنت جیسی یونیورسٹی کو حقیقی روپ میں جنت جیسا بنا دیں۔