نیب حکام کی جانب سے تمام تر کوششیں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض حسین کو عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے پر مرکوز ہیں جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے بڑی پیش رفت کے لیے پر امید ہیں۔
عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ خان کو القادر ٹرسٹ کا ٹرسٹی بنایا گیا۔ انہوں نے اسلام آباد کے قریب تحصیل سوہاوہ میں 458 کنال اراضی پر القادر یونیورسٹی قائم کی۔ یہ زمین بحریہ ٹاؤن نے عطیہ کی تھی۔ نیب تحقیقات میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ یہ زمین اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو ملک ریاض حسین کی مدد کرنے کے بدلے میں عطیہ کی گئی تھی تاکہ برطانیہ میں قبضے میں لیے گئے 190 ملین پاؤنڈز (50 بلین روپے) پاکستان میں بحریہ ٹاؤن کو واپس کیے جا سکیں۔
مقدمے میں شامل دیگر افراد میں سابق وفاقی وزیر اوورسیز پاکستانیز ذوالفقار بخاری اور سابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر شامل ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ ایک اوپن اینڈ شٹ کیس ہے اور اگر ملک ریاض عمران خان کے خلاف گواہی دینے پر راضی ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں سابق وزیر اعظم کو سزا سنائی جائے گی۔
بدعنوانی اور طاقت کے بے دریغ اور غیر قانونی استعمال کے جرم میں سزا ان کی انتخابی سیاست سے 5 سال کے لیے نااہلی کی راہ ہموار کرے گی۔ اس کے علاوہ ان کے خلاف دیگر تعزیری کارروائیوں کا بھی ڈھیر لگ جائے گا۔
تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تمام سلسلے میں سابق انٹیلی جنس چیف جنرل فیض حمید بھی بے نقاب ہو سکتے ہیں۔
اس کیس کے بارے میں معلومات رکھنے والے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا؛ 'ان کے خلاف ثبوت یہ ہے کہ یہ ان کے (یعنی جنرل فیض کے) کہنے پر ہوا تھا کہ اس نے فنڈز اور دیگر سہولیات کی شکل میں غیر ضروری احسانات دے کر عمران خان کے پروجیکٹ میں معاونت اور سرمایہ کاری کی'۔
القادر ٹرسٹ کیس کیا ہے؟
عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے 190 ملین پاؤنڈز کی پاکستان منتقلی میں مدد کی اور مبینہ طور پر ملک ریاض نے منی لانڈرنگ کی تھی جو پکڑی گئی اور برطانیہ کے نیشنل کرائم یونٹ نے یہ رقم ضبط کر لی تھی۔
عمران خان نے اپنی کابینہ کو ایک مہر بند دستاویز پر دستخط کرنے کے لیے طلب کیا اور شہزاد اکبر اور دیگر کے ساتھ مل کر کابینہ کے ارکان کو اس جرم میں شریک بنایا گیا۔ لیکن یہ کام ان کو یہ حقائق فراہم کیے بغیر کیا گیا کہ وہ کس دستاویز پر دستخط کر رہے تھے۔
اس مدد کے بدلے میں پراپرٹی ٹائیکون نے القادر ٹرسٹ کے زیر انتظام القادر یونیورسٹی کے لیے سوہاوہ میں وسیع اراضی عطیہ کی۔
نیب عہدیداروں نے مزید کہا کہ اس وقت کے وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے عمران خان کے ساتھ مل کر 3 دسمبر 2019 کو ایک مہر بند لفافے میں کابینہ کے سامنے ایک غیر دستخط شدہ ڈیڈ آف کانفیڈینشیلیٹی پیش کی۔
یہ سب مبینہ طور پر عمران خان، ملک ریاض، شہزاد اکبر اور دیگر ملزمان کو مالی فائدہ پہنچانے اور حاصل کرنے کے لیے کیا گیا۔ اس سے ریاست اور عوام کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
بطور وزیر اعظم عمران خان کی برطرفی کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے چیئرمین پی ٹی آئی کو قومی احتساب آرڈیننس (NAO) 1999 (قومی احتساب ترمیمی ایکٹ 2022 کے ذریعے ترمیم شدہ) کے سیکشن 19 اور دیگر متعلقہ قانونی دفعات کے تحت نوٹس جاری کیا۔
نیب حکام کا کہنا ہے کہ اتھارٹی نے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی مبینہ بدعنوانی اور بدعنوانی کے طریقوں کا نوٹس لیا ہے جیسا کہ سیکشن 9(a) (iii)، (iv)، (vi)، (xi) میں درج ہے اور دیگر جرائم کی وضاحت این اے او 1999 کے متعلقہ شیڈول میں کی گئی ہے۔
نیب نے عمران خان کو 16 مئی 2023 کے لیے سمن جاری کیا جو ان کی قانونی ٹیم کے رکن ایڈووکیٹ علی اعجاز بُٹر نے بدھ 17 مئی کو زمان پارک میں وصول کیا۔
نیشنل کرائم ایجنسی برطانیہ
14 دسمبر 2018 کو برطانیہ کے پریمیئر اینٹی گرافٹ باڈی، نیشنل کرائم ایجنسی (NCA) نے برطانیہ کے کرائم ایکٹ 2002 کے تحت دو پاکستانی شہریوں احمد علی ریاض اور ان کی اہلیہ مبشرہ علی ملک کے بینک اکاؤنٹس میں پڑے تقریباً 20 ملین پاؤنڈ ضبط کر لیے۔
اس کے بعد 12 اگست 2019 کو NCA نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض حسین اور ان کے خاندان کے بینک اکاؤنٹس میں موجود مزید 119.7 ملین پاؤنڈز کو منجمد کر دیا۔ ان کی جائیداد 1-ہائیڈ پارک پیلس، جس کی مالیت تقریباً 50 ملین پاؤنڈ ہے، بھی اسی قانون کے تحت ضبط کر لی گئی۔
نیب ذرائع نے تصدیق کی کہ اکاؤنٹ منجمد کرنے کے احکامات NCA کی طرف سے ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کورٹ، یو کے میں پروسیڈز آف کرائم ایکٹ 2002 کے تحت حاصل کیے گئے تھے۔
ایک سینیئر اہلکار نے دی فرائیڈے ٹائمز کو بتایا کہ وزیر اعظم کے لیے 2 دسمبر 2019 کے نوٹ میں پیراگراف 10 میں خاص طور پر یہ ذکر کیا گیا تھا کہ فنڈز پاکستان کے خزانے میں واپس بھیجے جائیں گے کیونکہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ رقم پاکستانی عوام سے چوری کی گئی ہے لیکن یہ فنڈز ملک کے نامزد اکاؤنٹ میں کبھی نہیں پہنچے۔
سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 3 دسمبر 2019 کو حکومت پاکستان کے ایسیٹ ریکوری یونٹ (ARU) نے ایک پریس ریلیز جاری کی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ نیشنل کرائم ایجنسی، یوکے نے ریاست پاکستان کو فنڈز کی فوری واپسی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ این سی اے کی جانب سے بیان جاری کیا گیا تھا جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ برطانیہ نے ملک ریاض کو نہیں بلکہ ریاست پاکستان کو منجمد فنڈز واپس بھیجنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
سینیئر اہلکار نے مزید کہا کہ ریکارڈ کے مطابق یہ فنڈز حکومت اور بالآخر عوام کو واپس بھیجنے کے بجائے بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کراچی (BTLK) کے واجبات میں ایڈجسٹ کر دیے گئے۔
القادر ٹرسٹ؛ انسداد بدعنوانی کی تحقیقات
نیب حکام کے مطابق سابق وزیر اعظم کو 2 مارچ 2023 کو کال اپ نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ تاہم وہ انکوائری میں شامل ہوئے اور نا ہی اپنا بیان ریکارڈ کرانے نیب کے سامنے پیش ہوئے۔ عمران خان نیب کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹس میں بیان کردہ دستاویزات پیش کرنے اور مخصوص معلومات فراہم کرنے میں بھی ناکام رہے۔
اس کے بجائے عمران خان نے تحریری جواب میں نیب پر 'فضول اعتراضات' اٹھانے کا الزام لگایا۔ وہ جان بوجھ کر نیب انکوائری سے گریز کر رہے ہیں۔
ذرائع نے فرائیڈے ٹائمز کو تصدیق کی کہ سابق وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو متعدد کال اپ نوٹس بھیجے گئے ہیں لیکن وہ احتساب کے نگران ادارے کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔
نوٹس میں نیب نے کہا کہ بدعنوانی کے جرائم کے الزامات انکوائری کے دوران مادی طور پر ثابت ہونے کے بعد انکوائری کو تفتیش میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 18 (c) کے تحت انکوائری کی رپورٹ پہلے ہی فراہم کر دی گئی ہے۔
عمران خان کو تمام متعلقہ دستاویزات کے ساتھ ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہونے اور شامل تفتیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔