'ضرورت نہ ہونے پر ٹیکس بڑھانا مالیاتی محرک کو کمزور کر سکتا ہے، اور غلط قسم کے ٹیکسوں کو بڑھانا ایک قوم کو مہنگائی کو تیز کرنے کے شدید خطرے سے دوچار کر سکتا ہے'۔ سٹیفنی کیلٹن، دی ڈیفیسٹ متھ
وفاقی حکومت نے مالی سال 2024-25 کے لیے پاکستان کے غریب اور متوسط طبقہ، خاص طور پر تنخواہ دار افراد کے لئے محصولات اور مہنگائی میں اضافے کا ایک نیا قومی ریکارڈ تو قائم کیا ہی ہے، مگر اس کے ساتھ ہی اشرافیہ کی ٹیکس سے مستثنیٰ مراعات، جن کی سالانہ مالیت اربوں روپے میں ہے، کو ہاتھ تک نہیں لگایا، بلکہ اس میں مزید اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کا تفضیلی تجزیہ اور جائزہ دی فرائیڈے ٹائمز میں 29 جون کے کالم میں دیکھا جا سکتا ہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ پر سارا الزام دھرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ہوشیار ریونیو کریسی (revenuecracy) نے اپنی نااہلی چھپاتے ہوئے وزارت خزانہ کو امیر اور طاقتور طبقات کو اربوں روپے کے حاصل ٹیکس استثنیٰ کو واپس کرنے کی بجائے صرف ان سیلز ٹیکس پر اس استثنیٰ کو واپس کیا جس کا براہ راست اثر عام عوام کی روزانہ استعمال کی اشیا پر ہوتا ہے۔
ظلم کی انتہا یہ ہے کہ دودھ، ادویات اور تعلیمی ضروریات کی اشیا پر بھی بھاری سیلز ٹیکس نافذ کر دیا گیا ہے، جبکہ تعلیم اور صحت کی فراہمی ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے، اس کا تعلق دستور پاکستان میں درج شدہ بنیادی حقوق سے ہے۔ ان بنیادی حقوق کا پورا کیا جانا ہر ایک اس فرد اور ادارے پر خاص طور پر لازم ہے، جس نے آئین اور اس کی بالادستی کا حلف لیا ہوا ہے۔
سب سے افسوس کا مقام یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کا بنیادی فرض ہے کہ وہ ان بنیادی حقوق کی پامالی کا ازخود نوٹس لے، مگر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے تمام محترم اور معزز جج حضرات کو جوڈیشل الاؤنس اور خصوصی عدالتی الاؤنس سمیت تمام الاؤنسز اور سرکاری سہولیات پر انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے دوسرے شیڈول کے پارٹ I کی شق (56) کے تحت استثنیٰ حاصل ہے جبکہ یہ چھوٹ ماتحت عدالتوں کے معزز جج حضرات کو حاصل نہیں۔ کیا یہ خود دستور پاکستان کے آرٹیکل 25 کی کھلی خلاف ورزی نہیں؟ محترم چیف جسٹس آف پاکستان آج ہر کیس میں خاص طور پر جو براہ راست نشر کیا جاتا ہے، دستور پاکستان کی بالادستی کا ذکر فرماتے ہیں، امید ہے کہ اس کھلی خلاف ورزی کا بھی نوٹس ضرور لیں گے۔
ایک طرف تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے معزز جج حضرات کو جوڈیشل الاؤنس اور دیگر مراعات پر انکم ٹیکس قانون میں مکمل استثنیٰ حاصل ہے اور دوسری طرف 10 کروڑ افراد موبائل صارف کے طور پر پیشگی 15 فیصد انکم ٹیکس ادا کر رہے ہیں، جبکہ ان کی آمدنی قابل ٹیکس حد سے کم ہے یا وہ ابھی زیر کفالت ہیں۔ اس کا تفصیلی تجزیہ پچھلے بہت سے کالمز میں کیا گیا، مگر تاحال کسی بھی سطح پر کوئی بھی نوٹس نہیں لیا گیا۔
آج اس کالم میں ایک اور غیر آئینی طور پر فنانس ایکٹ مجریہ 2024 کے ذریعے نافذ کیے جانے والی پیٹرولیم لیوی (levy petroleum) کا تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے، جس کا ذکر دی فرائیڈے ٹائمز میں 15 جون کو، جب یہ فنانس بل 2024 میں تجویز کی شکل میں تھا کیا گیا، چھپنے والے انگریزی کالم میں کیا گیا ہے۔ مگر جیسے کہ امید تھی نہ تو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے معزز ارکان نے اس کا نوٹس لیا اور نہ ہی تاحال بنیادی حقوق کی پاسدار عدالت عظمیٰ نے۔ یہ ہے ہمارا حقیقی المیہ کہ وہ جن کو آئین پاکستان کی پاسداری، عملداری اور نفاذ کو یقینی بنانا ہے وہی اس سے گریزاں ہیں۔
رواں مالی سال کے بجٹ میں پیٹرولیم مصنوعات پر پیٹرولیم لیوی کی مد میں 1281 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ یہ تخمینہ مالی سال 2023 کے 960 بلین روپے کے نظرثانی شدہ تخمینہ سے 321 بلین روپے کے اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔
مالی سال 2024-25 کے سالانہ وفاقی بجٹ کے ساتھ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا فنانس بل 2024 پٹرولیم مصنوعات (پیٹرولیم لیوی) آرڈیننس، 1961 (1961 کا XXV) کے پانچویں شیڈول کو تبدیل کرنے کی تجویز پیش کرتا تھا جس کو کچھ ترامیم کے بعد اب منظور کر لیا گیا ہے۔
پیٹرولیم لیوی کی شرح میں اضافہ بطور منی بل ناصرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ اس کے نفاذ کے بعد پہلے سے ہی مشکلات کا شکار عام لوگوں کی مالی مشکلات میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہو گا۔
ترمیم شدہ قانون کے مطابق ہائی سپیڈ ڈیزل آئل (HSDO) اور موٹر پٹرول پر زیادہ سے زیادہ پیٹرولیم لیوی 70 روپے فی لیٹر ہو گی جو پہلے 60 روپے تھی۔ یہ اضافہ افراط زر کو مزید بڑھا دے گا، نقل و حمل اور سامان کی مجموعی لاگت کو متاثر کرے گا۔ سپیریئر کیروسین آئل (SKO) پر 50 روپے فی لیٹر کی حد بھی بہت ہی زیادہ ہے، جیسے کہ لائٹ ڈیزل آئل (LDO) پر بھی۔ ہائی آکٹین بلینڈنگ کمپوننٹ (HOBC) پر 70 روپے فی لیٹر اور E-10 پٹرول پر 50 روپے فی لیٹر تک پیٹرولیم لیوی کا نفاذ ہو سکے گا۔ مقامی طور پر تیار کردہ مائع پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) پر پیٹرولیم لیوی اب 30 ہزار روپے فی میٹرک ٹن ہو گی۔
پٹرولیم مصنوعات پر پیٹرولیم لیوی کی مد میں مندرجہ بالا شرحوں میں اضافہ کاروبار کی لاگت کو بڑھانے، مہنگائی کو مزید اوپر دھکیلنے اور اقتصادی ترقی کو روکنے کا موجب ہو گا۔ یہ اسباب صارفین اور کاروبار دونوں کو پہلے ہی سے پریشان کر رہے ہیں جس میں مزید اضافہ ہونے کو ہے۔
پیٹرولیم لیوی میں مزید اضافے کے افراط زر کے اثرات کے علاوہ کسی نے بھی ابھی تک منی بل کے ذریعے اس نان ٹیکس (tax-non) آئٹم کو نافذ کرنے کا آئینی مؤقف نہیں اٹھایا ہے۔ حکومت کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری لیے بغیر پیٹرولیم لیوی میں اضافہ کرنے کا اختیار کہاں سے حاصل ہوتا ہے؟ اس کا جواب پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے تحت فنانس ایکٹ 2018 کے ذریعے پیٹرولیم مصنوعات (پیٹرولیم لیوی) آرڈیننس 1961 میں کی گئی ترمیم ہے جو کہ آئین کی سراسر خلاف ورزی تھی اور ہے۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
فنانس ایکٹ 2018 نے پیٹرولیم مصنوعات (پیٹرولیم لیوی) آرڈیننس 1961 کے پانچویں شیڈول کو بدل دیا جس میں پیٹرولیم لیوی کی شرح کی زیادہ سے زیادہ حد عائد کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ حد اس ترمیم سے پہلے ہائی سپیڈ ڈیزل آئل، موٹر گیسولین، سپیریئر کیروسین آئل، لائٹ ڈیزل آئل، ہائی آکٹین بلینڈنگ کمپوننٹ اور E-10 پٹرول پر 30 روپے فی لیٹر تھی۔ جبکہ مائع پٹرولیم گیس (پاکستان میں پیدا کی گئی/ نکالی گئی) کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ لیوی 20 ہزار روپے فی میٹرک ٹن مقرر کی گئی تھی۔
مذکورہ بالا ترمیم کے بعد حکومت کو اختیار دیا گیا کہ وہ پارلیمنٹ میں نہ جائے اور زیادہ سے زیادہ حد کے اندر رہتے ہوئے کسی بھی وقت پیٹرولیم لیوی کو بڑھا سکتی ہے۔ اس اختیار کو پھر انتظامی احکامات کے ذریعے استعمال کیا گیا۔ چونکہ حکومت بالائی حد میں ایک اور اوپر کی نظرثانی چاہتی تھی، اس لیے اس نے ایک بار پھر فنانس بل 2022 کے ذریعے قومی اسمبلی سے رجوع کیا۔ اسی کو 29 جون 2022 کو پیٹرولیم مصنوعات (پیٹرولیم لیوی) آرڈیننس، 1961 (XXV of 1961) میں ترمیم کرتے ہوئے منظور کیا گیا۔ حکومت کو پیٹرولیم لیوی کی زیادہ سے زیادہ حد 30 روپے سے بڑھانے کی اجازت دیتے ہوئے تمام پیٹرولیم مصنوعات پر 50 روپے فی لیٹر اور مائع پیٹرولیم گیس (پاکستان میں تیار ہونے والی/ نکالی جانے والی) پر 30 ہزار روپے میٹرک ٹن لیوی کا قانون منظور کیا گیا۔
اب تیسری بار مالیاتی ایکٹ 2024 کے ذریعے اوپر بیان کردہ پیٹرولیم لیوی کی بلند ترین شرح کے نفاذ کے لیے قانون سازی کی گئی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات (پیٹرولیم لیوی) آرڈیننس 1961 میں کسی بھی تبدیلی کو منی بل کا حصہ کیسے بنایا جا سکتا ہے کیونکہ پیٹرولیم لیوی طے شدہ آئینی اصول کے مطابق ایک غیر ٹیکس آئٹم ہے۔
2018 میں اس وقت کی قومی اسمبلی نے پیٹرولیم مصنوعات (پیٹرولیم لیوی) آرڈیننس 1961 میں ترمیم کرنے کا جو قانون پاس کیا وہ غیر آئینی تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2011 میں پیٹرولیم مصنوعات (پیٹرولیم لیوی) ترمیمی ایکٹ 2011 کے ذریعے پیٹرولیم مصنوعات (پیٹرولیم لیوی) آرڈیننس 1961 میں ترامیم کی گئی تھیں جسے آئین کے مطابق قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں نے منظور کیا تھا۔ اسے سینیٹ آف پاکستان کی ویب سائٹ پر دیکھا جا سکتا ہے۔
مالیاتی ایکٹ 2018 اور 2022 کے ذریعے پیٹرولیم مصنوعات (پیٹرولیم لیوی) آرڈیننس 1961 کے پانچویں شیڈول کے متبادل، جو بالترتیب 18 مئی 2018 اور 30 جون 2022 کو قومی اسمبلی سے منظور ہوئے، کے ذریعے سینیٹ کو نظرانداز کرنا ایک واضح غیر آئینی قانون سازی تھی جس کا تاحال کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔
کیا یہ وہی آئین ہے جس پر بقول چیف جسٹس آف پاکستان آج تک کوئی توجہ نہیں دی گئی؟ ان کی خدمت میں مودبانہ عرض ہے کہ صرف فوجی آمروں نے ہی نہیں بلکہ بعد میں منتخب جمہوریت کے نام نہاد علمدار، پاکستان تحریک انصاف اور پی ایم ایل این کی حکومتوں کی طرف سے آئین، جو سپریم لاء آف دی لینڈ ہے، کا پیٹرولیم لیوی کے معاملے میں آئین کی خلاف ورزی کا تسلسل رہا۔ اگرچہ دونوں ہی قانون کی پاسداری کا دعویٰ کرتے ہیں! البتہ اس پر کیا کہیے کہ نہ تو عدالت عظمیٰ اور نہ ہی کسی رکن قومی اسمبلی یا سینیٹ کو اس کھلی آئینی خلاف ورزی کا خیال آیا۔ اب 2024 میں بھی نہیں، جب اس کی طرف 15 جون کے مضمون میں تفضیلی اظہار کیا گیا اور تمام ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ کی توجہ مبذول کروائی گئی۔
15 جون کے مضمون میں اس کی وضاحت کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے جو کہ ورکرز ویلفیئر فنڈز m/o ہیومن ریسورسز ڈویلپمنٹ، اسلام آباد میں سیکرٹری اور دیگر بمقابلہ ایسٹ پاکستان کروم ٹینری (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے ذریعے اپنے جی ایم (فنانس) لاہور وغیرہ [114 TAX 385 (S.C. Pak)] کاحسب ذیل پیرا نقل کیا گیا:
'ہم اس نکتے کو مزید ترقی دے سکتے ہیں۔ اگرچہ آئین کا آرٹیکل 73(3)(a) کہتا ہے کہ اگر کوئی بل منی بل نہیں ہو گا اگر یہ پیش کی جانے والی کسی بھی خدمت کے لیے فیس یا چارج کے نفاذ یا تبدیلی کے لیے فراہم کرتا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی خاص لیوی/ شراکت آرٹیکل 73(2) کے اندر نہیں آتی ہے یہ لازمی طور پر آرٹیکل 73(3) کے اندر آتی ہے۔ ذیلی مضامین (2) اور (3) باہمی طور پر خصوصی نہیں ہیں۔ بہت اچھی طرح سے کچھ محصولات/شراکتیں ہو سکتی ہیں جو آرٹیکل 73(3) کے دائرہ کار میں نہیں آتی ہیں لیکن پھر بھی آرٹیکل 73(2) کے امتحان کے اہل نہیں ہیں اور اس وجہ سے منی بل کے ذریعہ متعارف نہیں کیا جا سکتا ہے اور اس کے بجائے باقاعدہ قانون سازی کے طریقہ کار پر عمل کرنا'۔
سپریم کورٹ کے مذکورہ بالا فیصلے نے ایسٹ پاکستان کروم ٹینری 2011PTD 2643 کے لاہور ہائی کورٹ کے کیس کی تائید کی، جس میں کہا گیا ہے:
'اس لیے خصوصی قانون سازی کا طریقہ کار مستثنیٰ ہے اور اسے اپنے محدود دائرہ کار میں کام کرنا چاہیے۔ ایک خصوصی طریقہ کار ہونے کے ناطے اسے سختی سے بھی سمجھا جانا چاہیے کیونکہ یہ آئین کے تحت عام قانون سازی کے عمل سے انحراف ہے۔ منی بل کی سالمیت کی غیرت کے ساتھ حفاظت کی جانی چاہیے اور آئین کے آرٹیکل 73 (2) (a) سے (g) کے دائرہ سے باہر آنے والے معاملات کو چوری چھپے منی بل میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے (بعض اوقات سیاسی نفاست کی وجہ سے۔ حکومت اقتدار میں ہے) اور اس کے تقدس میں ملاوٹ کرتی ہے'۔
فنانس ایکٹ 2018 اور 2022 کی منظوری کے وقت سپریم کورٹ کا مذکورہ بالا فیصلہ موجود تھا لیکن قومی اسمبلی یا سینیٹ میں کسی نے یہ مسئلہ نہیں اٹھایا کہ پیٹرولیم مصنوعات (پیٹرولیم لیوی) آرڈیننس 1961 میں ترمیم منی بل سے کیسے ہو سکتی ہے۔
اب حیران کن طور پر تیسری بار پی ایم ایل این کی مخلوط حکومت کی جانب سے فنانس ایکٹ 2024 کے ذریعے پیٹرولیم مصنوعات (پیٹرولیم لیوی) آرڈیننس 1961 میں مذکورہ بالا ترمیم کر کے آئین کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ آئین کے آرٹیکل 183(3) کے تحت جائزہ لیتے ہوئے اس آئینی خلاف ورزی کا نوٹس لے۔
یہ قانون کا بنیادی اصول ہے کہ اگر کسی قانون کی بنیاد ہی غیرآئینی اور غیر قانونی ہے تو تمام عمارت یعنی سپر سٹرکچر خودبخود منہدم ہو جاتا ہے۔ چونکہ 2018 میں منی بل کے حصے کے طور پر پیٹرولیم مصنوعات (پیٹرولیم لیوی) آرڈیننس 1961 میں ترمیم غیر آئینی تھی، اس لیے اس کے تحت کیے گئے تمام اقدامات قانون میں ناقابل قبول ہیں۔
اگر اپوزیشن مخلص ہوتی تو فنانس بل 2024 میں اس خلاف ورزی کی نشاندہی کرتی جو مسلم لیگ ن اور اس کے حامیوں نے اب یہ قانون منظور کر کے تیسری بار کی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ بجٹ 2024 کے خلاف ان کا احتجاج محض بے مقصد لب کشائی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ وہ اب بھی آئین کی اس ڈھٹائی سے خلاف ورزی پر آئین کےآرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔ ان میں بہت قابل وکیل بھی ہیں اور یہ ان کے لئے ایک ٹیسٹ کیس ہو گا کہ عوام اور آئین سے وہ کتنے مخلص ہیں۔