واضح رہے کہ وزارت قانون و انصاف کے ترجمان اور وزیراعظم کے دفتر میں قائم اثاثہ جات وصولی یونٹ (اے آر یو) نے ایک مشترکہ بیان میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں کچھ ججز کی برطانیہ میں رجسٹرڈ جائیدادوں کی مصدقہ نقول موصول ہوئی ہیں جن کی بنیاد پر ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا، تمام معلومات و شکایات موصول ہونے پر ہی اے آر یو، اٹارنی جنرل آف پاکستان، وزارت قانون و انصاف، وزیراعظم اور صدر مملکت نے یہ ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش کیا۔
سپریم کورٹ بار کے صدر نے خبردار کیا کہ اگر سپریم جوڈیشل کونسل نے 14 جون کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سماعت کی تو وکلا کورٹ نمبر ایک میں ریفرنس کو نذر آتش کر دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر وکلا کے خلاف طاقت کا استعمال کیا گیا تو ہم سینوں پر بھی گولی کھانے کے لیے تیار ہیں۔
امان اللہ کرمانی ے کہا، عوام اور وکلا اس مرتبہ سڑکوں پر نہیں آئیں گے بلکہ قانون اور آئین کو مسخ کرنے کی کوشش کرنے والے لوگوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جائے گا۔
انہوں نے کہا، ہمیں نام نہاد لوگوں کے بجائے خون بہانے والے سنجیدہ لوگ چاہئے تاکہ وکلا برادری کی جدوجہد یرغمال نہ ہو۔
صدر سپریم کورٹ بار نے کہا، ہم فون پر سنائے جانے والے کسی بھی فیصلے کو قبول نہیں کریں گے۔
انہوں نے انتباہ کیا، ہم حکومت کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ ریاست پر حملہ کرنے سے گریز کرے۔ ہم اجازت نہیں دیں گے کہ قلات کے سابق حکمران کے پوتے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ وہ سلوک ہی کیا جائے جو محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا، اگر حکومت احتساب ہی کرنا چاہتی ہیں تو سپریم جوڈیشل کونسل میں زیرالتوا تمام 350 کیسز کھولے جائیں۔