انہوں نے آٹھ صفحات پر مشتمل خط میں اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ صدر مملکت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یہ یقینی بنائیں گے کہ آئین کی پیروی کی جائے۔
واضح رہے کہ انہوں نے 29 مئی کو بھی صدر مملکت کو ایک صفحے پر مشتمل خط لکھا تھا جس میں انہوں نے یہ شکوہ کیا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبروں سے ان کی کردار کشی ہو رہی ہے جس سے منصفانہ ٹرائل کا ان کا قانونی حق خطرات کا شکار ہو رہا ہے۔
قانون مبصرین کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حالیہ خط کو لندن میں تین جائیدادیں رکھنے کے الزامات کا جواب مانا جا رہا ہے، تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ وہ خود پر اور اپنے خاندان کے خلاف تحقیقات کے طریقہ کار پر صبر کر سکتے ہیں لیکن کیا یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی سلب کرنے کا باعث تو نہیں بن رہا؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان خدشات کا اظہار بھی کیا کہ اگر عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچے تو آئین کے تحت عوام کو حاصل بنیادی حقوق کاغذ پر لکھے گئے الفاظ سے بھی چھوٹے ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے صدر مملکت کے نام لکھے گئے خط میں مزید کہا، آئین کا تقدس ان کی اولین ترجیح ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں شکوہ کیا کہ حکومتی ارکان کی جانب سے ادھورے سچ کو بنیاد بنا کر انہیں اور ان کے خاندان کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ نہایت پریشان کن صورت حال ہے۔
انہوں نے خط میں مزید لکھا، اگر مقصد محض نجی زندگیوں میں مداخلت کرتے ہوئے سازش کرنا ہے تو پورے سچ کو کیوں پوشیدہ رکھا جا رہا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا، حکومت کے تفتیشی ادارے لازمی طور پر یہ جانتے ہوں گے کہ میرے دونوں بچوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد لندن میں کام کیا اور حکومت کی جانب سے جن تین جائیدادوں کی تفصیل کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے، وہ وہاں اپنے اہلخانہ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔
انہوں نے کہا، جائیدادیں ان کے بچوں کے نام پر ہیں اور وہ اس کے مالک ہیں۔ ملکیت چھپانے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔ میری کوئی جائیداد کسی ٹرسٹ کے نام پر ہے اور نہ ہی کبھی کوئی آف شور کمپنی قائم کی۔
ان کا مزید کہنا تھا، میں پاکستان کے ٹیکس نظام کے تابع ہوں اور مجھے کبھی میری اہلیہ اور بچوں کی جائیدادوں سے متعلق کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔ میں نے جب سے یہ پیشہ اختیار کیا ہے، انکم ٹیکس ادا کر رہا ہوں۔ میرے خلاف انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کی کوئی شکایت موجود نہیں اور نہ ہی انکم ٹیکس میرے خلاف کوئی کارروائی کر رہا ہے۔
انہوں نے حیرانی کا اظہار کیا کہ کیا وزیراعظم نے اپنے تمام ٹیکس ریٹرنز میں اپنی اہلیہ اور بچوں کی جائیدادوں کی تفصیل ظاہر کی ہے؟ انہوں نے اگر ایسا نہیں کیا تو لازمی طور پر صدر کو ریفرنس جمع کروانے کی ہدایت نہ کی ہوتی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا، سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے کسی قسم کے نوٹس کے اجرا سے قبل ہی انہیں حاصل آئینی تحفظ اور شفاف ٹرائل کی خلاف ورزی کی جا چکی ہے۔