زندہ قومیں ہر وقت اپنا احتساب کرتی رہتی ہیں مگر چونکہ پاکستان میں یہ روایئت نہیں ہے اس لئے ہم یہ تو کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کی تھی مگر ان کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے مگر شکر ہے کہ انہیں غدار کہہ کر تختہ دار پر نہیں لٹکایا گیا-
نواز شریف کی اس وقت کی کابینہ کے لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں اور بقول ہمارے دوست نصرت جاوید 'لال حویلی والے بقراط' تو بہت دور تک جاتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ دھماکہ انہوں نے کروایا- مگر لوگوں کا خیال ہے کہ وہ دھماکوں کے بعد میں ہونے والے واقعات سے گھبرا کر ملک سے باہر چلے گئے تھے-
میں سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں نے ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کی ان کی بات میں وژن تھا اور وہ بغیر دلیل کے بات نہیں کر رہے تھے-
اب تو شائد ایٹم بم بنانے یا نہ بنانے کی بحث لا یعنی اور لا حاصل ہو چکی ہے کیوں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے-
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہنوستان بھی ایک ایٹمی طاقت ہے[چین تو پہلے ہی تھا]-
اب بہت اہم سوال ہے اور یہ بات بہت سنجیدگی کے ساتھ دیکھنی اور سمجھنی چاہئے کہ ہم نے جن مقاصد کی وجہ سے ایٹم بم بنایا تھا کیا اس میں کامیاب ہو گئے ہیں؟-جیسا کہ کہا جاتا تھا اور کہا جا رہا ہے کہ اگر 1971 میں ہمارے پاس ایٹم بم ہوتا تو ہندوستان، پاکستان کو دو لخت نہیں کر سکتا تھا- اور آج ہندوستان، پاکستان پر حملہ اس لئے نہیں کرتا کہ اسے معلوم ہے کہ پا کستان کے پاس ایٹم بم ہے اور وہ اس کو استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا-
اور پاکستان کی بقا ایٹم بم میں ہے؟
یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ پاکستان میں ایٹم کا استعمال ایوب خاں نے شروع کیا تھا مگر یہ ایٹم کا پر امن استعمال تھا- بجلی پیدا کرنا- فصلوں کی پیداوار بڑھانا اور کچھ موذی امرض سرطان کا علاج وٰغیرہ وغیرہ-
بعض لوگ کہتے ہیں کہ کیونکہ جنرل ایوب امریکہ کا 'پٹھو' تھا اس لئے اس نے ایٹمی ہتھیار [ایٹم بم] نہیں بنایا-
مختصراْ عرض یہ ہے کہ گو پاکستان میں ایٹم برائے ترقی اسعتمال ہو رہا تھا اور اس وقت تک کسی بھی حکمران نے ایٹم بم بنانے کا نہیں سوچا تھا- جب تک کہ پاکستان دو ٹکرے نہیں ہو گیا-
پاکستان ٹوٹنے کے بعد اس نظریہ کا زور شور سے چرچا کیا گیا کہ اگر پاکستان کے پاس ایٹم بم ہوتا تو ہندوستان، پاکستان پر 1971 میں حملہ کرنے کی جرت نہیں کر سکتا تھا-اس نظریہ کا مقصد یہ کہنا تھا کہ تکمیل پاکستان میں اگر کوئی خامی یا کمی تھی تو وہ صرف ایٹم بم تھا-
لہذا نئے پاکستان یا موجودہ پاکستان میں پاکستان کے پہلے حاکم ذولفقار علی بھٹو نے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سر عام یہ نعرہ لگایا کہ 'ہم گھاس کھایئں گے مگر ایٹم بم ضرور بناِیئں گے'اس کام کے لئے انہوں نے جہاں اور بہت سارے اقدامات اٹھائے وہاں وہ ایک پاکستانی سائنسدان ڈاکڑ عبد لقدیر کو بھی پاکستان لائے اور اس کے ذ مہ ایٹم بم بنانا اور اس کے لئے ضروری لوازمات اکھٹا کرنا ، کہوٹہ پلانٹ کی تعمیر وغیرہ تھا-
یہ کوئی دھکی چھپی بات نہیں ہے کہ مغرب خاص کر امریکہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اور ملک ایٹم بم بنائے-
یہاں اس بات کا ذکر بھی بے جا نہ ہوگا کہ امریکہ کے وحشیانہ قدم یعنی جاپان کے اس بات کے باوجود کہ وہ ہتھیار پھینکنے کی لئے تیارتھا دو جاپانی شہروں، ناگا ساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرا دئے -جس سے یک لخت ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے-جب پاکستان نے ایٹم بم کا دھماکہ کیا تو جاپانی پاکستان آتے تھے اور کہتے تھے کہ جو مر گئے وہ خوش قسمت تھے کیوں کہ ایٹم بم کے تابکاری اثرات بہت دیر تک اور بہت دور تک پھیلتے ہیں-جس کا منفی اثرآیئندہ نسلوں پر بھی ہوا-
یہ بات با لکل سچ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں پر عالمی پابندی کے بعد قانونی طور پر ایٹم بم بنانا اخلاقی اور قانونی لحاظ سے جرم ہے مگر دوسری طرف بڑی طاقتوں نے ہر قسم کے مہلک ہتھیار بنانے میں کبھی کوئی کمی نہ کی بلکہ ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ کیمیائی ہتھیار بھی بنائے-بلکہ ایک ایسا بم بھی بنایا جو کہ لوگوں کو مار دیتا ہے ،مگر عمارتوں کو نْقصان نہیں پہنچاتا-
اس بات میں کبھی بھی دیر نہیں ہوتی، آدمی جب چاہے اپنے اعمال پر نظر ثانی کر سکتا ہے-
سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا ایٹم بم ، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ روک سکا ہے؟ تو اس کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ جی نہیں - یہ بات درست ہی کہ 1965 اور 1971 جیسی جنگ نہیں ہوئی جس میں ہندوستان نے پاکستان کی سرحد پار کی ہو-لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ہندوستان نے کشمیر میں سیاچین پر غاصبانہ قبغہ کر لیا جو آج بھی قائم ہے، پاکستان اور ہندوستان کی فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہیں-
پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل مشرف نے اس وقت کے سویلیں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے علم اور اجازت کے بغیر کارگل کی پہاڑیون پر قبضہ کر لیا لیکن بعد میں جان چھڑانے کے لئے میاں محمد نواز شریف کو امریکہ جاکر فوجوں کی واپسی کا معاہدہ کرنا پڑا-
ایٹم بم کے باوجود بمبے کا واقعہ ہوا- بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا، اور ہنداوستانی ہوائی اڈہ پر حملہ ہوا اور پھر پلوامہ کا واقعہ ہوا- جس کے بعد ہندوستان کے ہوائی جہازوں نے پاکستان کی سرحد عبور کی اور اپنے وجود کا ثبوت دینےکے لئے کچھ فوجی ساز و سامان بھی پھینک گئے-
اس سے پہلے کہ میں بتاوں کہ کس تحریر نے مجھے یہ سب کچھ لکھنے پر مجبور کیا-
میرے ذاتی خیال میں ذولفقار علی بھٹو نے ایٹم بم بنانے کی بنیاد رکھی، جنرل ضیا الحق نے اسے پا یہ تکمیل تک پہنچایا- میان محمد نواز شریف نے ایٹمی دھماکہ کیا-اور وہ لوگ، گمنام سپاہی شامل ہیں جن کا ہم نام تک نہیں جانتے اور نہ جاننا چاہتے ہیں-
یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ جنرل ضیا الحق نے دھماکہ کرنے کے بغیر ہی اسلام آباد کے انگریزی اخبار دی مسلم کے ایڈیڑ مشاہد حسین سید کے ذریعہ ہندوستان کے سینیر صحافی کلدیپ نئیر کو بلا کر ڈاکڑ قدیر سے ملاقات کر وا کر ہندوستان کو پیغام دے دیا کہ ' پاکستان کے پاس ایٹم بم ہے'-
مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں پاکستانی سائنسدان اشارہ کنایہ میں یہ بتاتے تھے کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہے-
A screw away
اب جنرل ضیا نے کس حکمت عملی کے تحت دھماکہ نہیں کیا ----؟
وہ لوگ جو ایٹمی ہتھیاروں کا علم رکھتے ہیں اور اہل بصیرت ہیں ان کا کہنا ہے کہ 'ایٹم بم بنانا اتنا مشکل نہیں ہے جتنا کہ اسے سنبھالنا'
جہانگیر اشرف قاضی پاکسان کے ایک سینیر ترین سفارت کار ہیں- وہ امریکہ اور ہندوستان
میں بھی پاکستان کے سفیر رہے ہیں اورسفارتی حلقوں میں ان کا بہت بڑا نام اور احترام ہے-
انہوں نے پاکستان کے انگریزی اخبار 'دی نیوز' کی دو جون کی اشاعت میں جو لکھا ہے- میں ان کے الفاظ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں-
Ashraf Jehangir Qazi
June 2, 2020
Quo vadis?
What if Pakistan had nuclear weapons in 1971? Would they have deterred India and saved united Pakistan? They may have deterred India. But they would not have saved united Pakistan. This was because Pakistan’s ruling and governing structures, both de jure and de facto, have always ensured it could not be transformed into an equitable, inclusive, participatory and stable democracy.
فیصلہ آپ خود کر لیں-