ذرائع کے مطابق حکومت اس صدارتی ریفرنس کے حوالے سے موجودہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان سے باقاعدہ نئی قانونی رائے (ایڈوائس) لینے پر غور کر رہی ہے، جس میں حکومت کو باضابطہ طور پر ریفرنس واپس لے لینے کا مشورہ دیا جائے گا، جبکہ اس حوالے سے وزیراعظم پر اسد عمر اور فواد چوہدری سمیت متعدد ایسے وزرا کی رائے کا دباؤ بھی بڑھ رہا ہے جو اول روز سے سپریم کورٹ سے پنگا لینے کے حق میں نہیں تھے، اسی حکومتی حلقے نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ دینے والی خصوصی عدالت کے سربراہ، چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں جانے سے روکا تھا۔
وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس بھی غیر سیاسی اہم حلقوں کے دباؤ پر دائر کیا، جسے فاضل جج کو ججی سے ہٹوانے اور تین برس بعد انہیں چیف جسٹس آف پاکستان بننے سے روکنے کی پیش بندی کی ایک کوشش سمجھا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید جان وزیراعظم کی ہدایت پر روزانہ باقاعدگی سے سپریم کورٹ کے دس ججوں کے بنچ میں صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور بار ایسوسی ایشنز کی آئینی درخواستوں کی سماعت attend کرتے اور واپس جا کر وزیراعظم کو اس بابت بریف کرتے ہیں۔
باور کیا جاتا ہے کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ حکومت کی طرف سے ریفرنس واپس لے لیے جانے کے نتیجے میں سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کا باب بند ہوجائے، تب بھی جسٹس قاضی فائز عیسٰی سمیت درخواست گزار اپنی آئینی درخواستیں واپس لے لیں گے۔ البتہ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان کی بیرسٹر فروغ نسیم کی تشکیل کردہ قانونی ٹیم میں اہم تبدیلیوں اور متعدد اہم لوگوں کو فارغ کر دیئے جانے کا امکان ہے جبکہ بیرسٹر فروغ نسیم اور وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی خارج از امکان نہیں۔
ذرائع کے مطابق معزز جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کی صورت میں دائر کیا گیا مقدمہ آئینی ماہرین اور قانون دانوں کے سنجیدہ حلقوں کی نظر میں مس فائر ہی نہیں بلکہ فائر بیک ثابت ہو کر حکومت کے گلے پڑ سکتا ہے، جس کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ یہ مقدمہ 'فیض آباد دھرنا کیس' میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ کے فیصلے کی وجہ سے دائر کیا گیا لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ اب حکومتی و مقتدر حلقوں کو اس بات کا ادراک ہوگیا ہے کہ اقتدار کی ریاستی تکون میں فیصلہ کن طاقت کا مرکز عدلیہ کا ادارہ ہی ہے، جس کی تازہ ترین مثال آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کا کیس ہے۔