عالمی میڈیا کے مطابق معروف ترک اداکارہ ایزگی مولا کے خلاف دارالحکومت انقرہ کی پینل کورٹ میں فوجی اہلکار کی توہین کرنے کے الزام میں فوجداری مقدمے کی درخواست دائر کی گئی، جسے عدالت نے منظور کرلیا۔ اداکارہ پر الزام ہے کہ انہوں نے اگست 2020 میں ترک فوجی موسیٰ ارہان کے خلاف اس وقت توہین آمیز ٹوئٹ کی تھی، جب عدالتوں نے نہیں ضمانت پر رہا کردیا تھا۔عدالتوں کی جانب سے رہا کیے گئے فوجی اہلکار پر 18 سالہ کرد لڑکی کا 20 دن تک ’ ریپ‘ کرنے کا الزام تھا۔ فوجی اہلکار پر جس لڑکی کے ’ ریپ‘ کا الزام تھا، اس نے جولائی 2020 میں خودکشی کی کوشش کی تھی، جس میں وہ سخت زخمی ہوگئی تھیں اور بعد ازاں اگست 2020 میں ہسپتال میں دم توڑ گئی تھیں۔
خودکشی کرنے والی کرد لڑکی نے مرنے سے قبل لکھے گئے خط میں فوجی اہلکار موسیٰ ارہان پر 20 دن تک ’ ریپ‘ کرنے کے الزامات لگائے تھے۔
لڑکی کی خودکشی کے باوجود عدالتوں کی جانب سے فوجی اہلکار کو ضمانت پر رہا کرنے کے خلاف گزشتہ برس ترکی بھر میں مظاہرے بھی کیے گئے اور مذکورہ معاملے پر حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے بھی بھرپور آواز اٹھائی۔
اسی دوران اداکارہ ایزگی مولا نے بھی رہا کیے جانے والے اہلکار کے خلاف ٹوئٹ کرتے ہوئے ان کی گرفتاری سے متعلق ہیش ٹیگ بھی استعمال کیا تھا، جسے بعد ازاں اداکارہ نے ڈیلیٹ کردیا تھا۔
مذکورہ ٹوئٹ کے بعد اب فوجی اہلکار موسی ارہان کے وکلا نے اداکارہ کے خلاف فوجداری مقدمہ دائر کردیا اور اگر ان پر الزام ثابت ہوا تو انہیں دو سال 4 ماہ تک جیل قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
ریپ بطور جنگی جرم اور جنگی ہتھیار
دنیا کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جنگوں کے دوران مفتوحہ علاقوں میں خواتین کا جنسی استحصال بطور جنگی ہتھیار عام استعمال میں لایا جاتا تھا۔ اسے آج کی دنیا میں وار کرائمز یا جنگی جرائم کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے۔
تاہم اس کی تاریخ پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے کے لیئے دی انڈیپنڈنٹ اردو پر شائع ہونے والے تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کے ایک مضمون کے یہ حصے اہم اور متعلقہ ہیں۔
ریپ کو تاریخ میں بطور جنگی ہتھیار کیسے استعمال کیا گیا، اس کی ایک مثال ایران کے قاچار خاندان کے بادشاہ فتح علی شاہ قاچار (وفات 1864) کی ہے جس نے قفقاز کے علاقے پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کیا تو اس کے فوجیوں نے نہ صرف مفتوحہ عورتوں کا ریپ کیا بلکہ ان کی دائیں رانوں کی ایک رگ کاٹ کر انہیں زندگی بھر کے لیے اپاہج بھی کر دیا۔جب بھی یہ عورتیں لنگڑا کر چلتیں تو دیکھنے والے پہچان لیتے کہ یہ وہ عورتیں ہیں جن کا ایرانی فوجیوں نے ریپ کیا تھا۔ یہ کوئی غیر معمولی مثال نہیں۔ پدرسری نظام کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔قدیم اور عہد وسطیٰ میں ہونے والی جنگوں میں یہ دستور تھا کہ فتح کے بعد شکست خوردہ قوم کے مردوں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے قتل کر دیا جاتا تھا تاکہ اُن کے خلاف لڑنے والا کوئی نہ رہے اور پھر نوجوان عورتوں کو گرفتار کر کے اُن کا ریپ کیا جاتا اور اُنھیں بازار میں بطور کنیز فروخت کیا جاتا۔یہودیوں نے جب فلسطین پر قبضہ کیا تو شکست خوردہ قوم کی لڑکیوں کے ساتھ یہی سلوک کیا۔ سکندر نے بھی جب غزہ پر حملہ کیا تو مردوں کو قتل کرکے یونانیوں نے اُن کی عورتوں کا ریپ کیا، لہٰذا شکست کے بعد لوگ اپنی لڑکیوں کو جنگلوں اور پہاڑوں میں چھپا دیتے تھے تاکہ اُن کی عزت محفوظ رہے لیکن جدید دور میں سب سے زیادہ ظلم و ستم چاپانیوں نے کیا، جب انہوں نے دوسری جنگ عظیم میں چین پر حملہ کر کے نان کِنگ شہر میں مردوں کا قتل عام کیا۔
جس کی تصاویر شہادت دیتی ہیں کہ شہر کے فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے نوجوان لڑکیوں کو تلاش کر کے اُن کا ریپ کیا اور جب ان کو چھپا دیا گیا تو اُن کی ماﺅں کا ریپ کر کے لڑکیوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔دوسری جنگ عظیم میں جاپانیوں نے جب کوریا پر قبضہ کیا تو وہاں سے عورتوں کی بڑی تعداد کو اس پر مجبور کیا وہ جاپانی فوجیوں کی جنسی ہوس کو پورا کریں۔ یہ عورتیں کمفرٹ ویمن (Comfort Women) کہلائیں۔ جنگ کے خاتمے اور جاپان کی شکست کے بعد جب ان عورتوں نے اپنی درد بھری داستانیں سنائیں تو اندازہ ہوا کہ جاپانیوں نے کس سفاکی کے ساتھ ان عورتوں کی زندگی کو تباہ کیا۔ اب تک ان میں سے جو خواتین زندہ ہیں، وہ مطالبہ کرتی ہیں کہ جاپانی حکومت ان پر ہونے والے ظلم کا معاوضہ ادا کرے۔جاپان کے اس رویے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک عورت کی حیثیت جنسی خواہشات پورا کرنے کے سوا اور کچھ نہیں تھی اور مفتوحہ عورتوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ان کے لیے جائز تھا۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ خود جاپانی معاشرے میں عورت کا درجہ گرا ہوا تھا اور یہی وہ ذہنیت تھی جس نے مفتوحہ عورتوں کے ریپ کو استعمال کیا۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے بھی نشاندہی کی ہے کہ فوجی ایکشن کے بعد اُن کی عورتوں کا بڑے پیمانے پر ریپ کیا گیا تھا اور انہوں نے حاملہ ہونے کے بعد بچوں کو جنم بھی دیا۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے یہ ثبوت اعداد و شمار کے ساتھ پیش کیے ہیں۔
1947 میں ہونے ہندو مسلم فسادات میں بھی عورتوں کی عزت محفوظ نہیں رہیں۔ عورتوں کی اغوا کیا گیا اور ریپ کا وارداتیں بڑے پیمانے پر کی گئیں۔
تقسیم کے بعد ایک معاہدے کے تحت دونوں جانب سے اغوا شدہ عورتوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ یہ ایک دردناک صورت حال تھی کیونکہ واپس کرنے والی عورتوں کی اُن کے خاندان والوں نے بھی بدنامی کے خوف سے بمشکل قبول کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں عورت کی حیثیت کس قدر نازک ہے اور پدرسری نظام کی روایات کس قدر مستحکم ہے۔