'لاپتہ ہو جاؤ، کاسہ لیس بن جاؤ یا پھر دہشت گرد کہلاؤ': بلوچ نوجوانوں کا نوحہ کون سنے؟

03:36 PM, 4 Jun, 2021

جاوید بلوچ
اٹھارہ سال کی عمر میں ریاست کا کوئی بھی شہری ایک بالغ اور باشعور شہری تصور کیا جاتا ہے جو نا صرف اپنی زندگی کی معاملات میں شعوری فیصلے کرسکتا ہے بلکہ اپنے باشعور شہری ہونے کی حیثیت سے ووٹ دینے کا بھی اہل ہوجاتا ہے۔ ایسے کسی نوجوان کے کسی بھی فیصلے کو محض جذباتی، گرم جوشی یا لاشعوری غلطی نہیں کہا جاسکتا۔ اوراس نوجوان کے اقدامات کو تو بالکل لاشعوری نہیں کہا جاسکتا جو ایک انتہائی پسماندہ علاقے سے نکل کر ملک کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر کی بہترین یونیورسٹی میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوا ہو۔ وہ طالب علم اپنے بہتر تعلیمی بنیاد رکھنے والے کلاس فیلوز کا مقابلہ کرے، کئی خواب آنکھوں میں سجائے اور یونیورسٹی سے نکل کر پہاڑوں پر پہنچ جائے جہاں سے ایک دن یہ خبر آئے کہ مقابلے میں مارا گیا۔ یہ سب کچھ تو لاشعور اور جذبات میں نہیں کیا جاتا۔

اسی موضوع پر پچھلے سال ایک مضمون میں نے لکھا تھا جو اسلام آباد سے تعلیم حاصل کرنے والے دو طالب علم شہداد بلوچ اور احسان بلوچ سے متعلق تھا۔ اور آج وہی سارا موضوع ایک اور بلوچ طالب علم آفتاب بلوچ سے متعلق ہے۔ آفتاب بھی اسلام آباد کے ایک اعلی تعلیمی ادارہ میں معاشیات کے طالب علم تھے اور ان سے متعلق اب خبر ہے کہ انھوں نے ایک کالعدم بلوچ مزاحمتی تنظیم کو جوائن کیا تھا جو بولان کے علاقے میں مقابلے میں اپنے دو اور ساتھیوں کے ساتھ مارے گئے ہیں۔جب دو بلوچ نوجوانوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کررہی تھیں جن میں سے ایک شاہ داد بلوچ کی تھی جو قائد اعظم یونیورسٹی میں ایم فل کے طالب علم تھے اور دوسرا احسان بلوچ جو جینڈر اسٹیڈیز کے طالب علم تھے، دونوں سے متعلق خبر یہی تھی کہ دونوں نے یونیورسٹی سے نکل کر بلوچ لبریشن آرمی میں شمولیت اختیار کی اور ایک مقابلے میں مارے گئے۔

ان تصاویر کے ساتھ شاہ داد بلوچ کی ایک اور تصویر بھی شیئر کی گئی تھی جس میں وہ ایک مذہبی شدت پسند طلبہ تنظیم کے ریاستی سربراہی میں چلنے والے طلبہ فاشسٹ گروپ کے ہاتھوں پنجاب یونیورسٹی میں تشدد سے زخمی ہوئے تھے۔ ان دو نوجوانوں سے متعلق کئی پوسٹس غیر بلوچوں کی بھی تھیں جن میں شاہ داد بلوچ کی ایک خاتون استاد بھی شامل ہیں۔
‘we all failed you shahdad’ اور ایک طویل تحریر میں شاہ داد کے ساتھ اپنی تمام تر یاداشتیں، تاثرات غم و غصہ بیان کرتی ہیں اور ریاست کے لیے کئی ایسے سوالات بھی رکھتی ہیں جو شاید ایک بلوچ طالب علم کے لیے ممنوعہ ہیں۔ ملک کی بڑی یونیورسٹیوں سے نکلنے والے بلوچ طالب علم پہاڑوں کا رخ کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کو ایک بار پھر شدت کے ساتھ پوچھا جارہا ہے، اور جواب میں کچھ لوگ اسے وہاں یعنی بیرون بلوچستان ملک کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طالب علموں کو درپیش مسائل، تشدد، تعصب اور حقارت کی نظر سے دیکھنے کے امر کو بطور وجہ پیش کر رہےہیں، لیکن شاید مکمل طور پر ایسا نہیں ہے۔ اب ساحل و وسائل پہ حق اور پارلیمانی دعووں کے برعکس بلوچ طالب علموں کے لیے بلوچستان میں جگہ نہ ہونا اس کی بڑی وجہ ہے کیونکہ ان کئی دہائیوں میں پورے بلوچستان کو ایک ایسی خوف کی وادی میں تبدیل کیا گیا ہے جہاں اب صرف خانیوال سے آیا ہوا مزدور خوف کا شکار نہیں ہے بلکہ ہر شخص دوسرے کی نظر میں مشکوک ہے۔ بلوچستان میں اب نوجوان گھر میں ہوتے ہوئے خوف کا شکار ہیں۔ بلوچ والدین کے لیے اعلٰی تعلیم اب خطر ناک راستہ ہے جہاں سے بیٹا یا بیٹی فارغ ہوکر مقتدرہ کی نظر میں سب سے زیادہ مشکوک ہونے لگتا ہے کیونکہ یہ تعلیم یافتہ شخص اس نظام سمیت مقامی اسمگلر، کرپٹ، دونمبر اور سردار و سرکردہ کو کھلا چیلنچ کرتا ہے کہ تمھارے آگے پیچھے دم نہیں ہلاؤنگا، جس چیلنچ کا مطلب ریاست کو چیلنچ کرنا لیا جاتا ہے جو کسی صورت منظور نہیں، ایسے میں دو ہی راستے بچتے ہیں یا لاپتہ ہوجاؤ یا مزاحمت کرو۔

بلوچ طالب کو کبھی بھی نہ تو مقتدرہ کی پشت پناہی پر قائم مقامی اثر و رسوخ رکھنے والوں نے برداشت کیا اور نہ ہی ریاست نے بلکہ انھیں تبلیغ اور مذہب کے نام پر شدت پسند بنانے کے لیے کام کیا گیا یا ایسا بنوانے کی کوشش کی گئی کہ وہ مشرف کی سزا کے خلاف اسپرے لے کر وال چاکنگ کرنے والے بنیں اور چند مقامی لوگوں کے آس پاس جی جی کرنے والے۔یہاں آج صورت حال یہ ہے کہ پرائمری کے طالب علموں کو کسی دور دراز کے اسکول سے نکلوا کر سرکاری ایام پر منعقدہ سرکاری ریلیوں جیسے یوم کشمیر و پاکستان پر نعروں کی تربیت دی جاتی ہے جیسا کہ انڈیا مردہ باد۔ جس معصوم بچے کو یہ تک معلوم نہیں کہ انڈیا، بھارت اور ہندوستان میں کیا فرق ہے۔ بلوچ طالب علم کے لیے بلوچستان دن بہ دن جلتا ہوا انگارہ بنتا جارہا ہے جہاں وہ روز کسی کی تعریفی کلمات ادا کرے یا زندہ باد و مردہ باد کے نعرے لگا کر کسی سرکاری بابو کی خوشنودی کے سرٹیفکٹ حاصل کرے تاکہ وہ لاپتہ ہونے سے بچ جائے اگر کوئی دوست احباب لاپتہ ہو تو ان سے اور ان کے اہل خانہ سے لا تعلقی کرے ورنہ پھر اس کی باری آئے گی۔

اگر کوئی اپنے شوق سے بندوق اٹھا کر پہاڑوں پر جانا چاہتا ہے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے روک نہیں سکتا مگر ایسے حالات بھی نفسیاتی مریض بن کر جینے نہیں دیتے جہاں سوال کرنا جرم ہو، جہاں اعلی تعلیم پر بے پناہ مشقت کے باوجود دروازے بند ہوں۔ جہاں مایوسی کے بادل ہوں۔ جہاں منشیات کا بازار گرم ہو، جہاں کرپٹ، اسمگلر، ڈاکو اور مافیاز ریاست کی نظر میں سب سے بڑھ کر محب وطن ہوں۔ جہاں اساتذہ کے لئے قومی دن منانے کا حکم ساتھ والی پوسٹ سے آتی ہو اور پھر بھی روز روز اسکول جاتے ہوئے یہ بتانا ضروری ہو کہ میں ایک استاد ہوں اور اسکول جارہا ہوں، جہاں مذہبی شدت پسند ہونا فخر کی نشانی ہو ایسے بلوچستان میں بھلا ایک ذہن بیمار ہوئے بغیر کیسے رہ سکتا ہے؟ ایسا نہیں ہے کہ آج کے بلوچ طالب علم کو پنجاب کے مزدور کسان کے حالات کا پتہ نہیں مگر جب بھی پنجاب سے کسی نازک پھول جیسی زینب کو درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا ساہیوال میں جعلی مقابلے میں معصوم بچوں کے والدین کو قتل کردیا جاتا ہے تو بلوچستان کا ہر طالب علم بولتا ہے احتجاج کرتا ہے لیکن بلوچ و بلوچستان کے معاملے میں پنجابی اکثریت کی اس خاموشی اور لاتعلقی پر بلوچ طالب علم سوال تو کر سکتا ہے ناں؟ جب بلوچ ہی بلوچستان میں محفوظ نہ ہو تو وہ کسی جنگجو حملہ آور سے کسی مزدور اجنبی کو کیسے بچا پائے گا؟

تصاویر میں قید شدہ بلوچستان جہاں ہمسایہ حکمران کی طرح "سب اچھا ہے” اور گوادر پورٹ کی تصاویر کے علاوہ بھی بلوچستان کی تصویریں ہیں جنھیں دیکھنے کی ضرورت ہے ورنہ بلوچ و بلوچستان کے نام پر تصاویر تو بن سکتی ہیں ان میں وقتی مسکراہٹ بھی ہوسکتی ہے مگر دل میں درد، سروں پر بوجھ اور ذہن میں سوالات ختم نہیں ہونگے۔

نوٹ:
اس تمام مضمون میں ایک پیراگراف کے اضافے کے علاوہ ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزرگیا مگر بلوچستان بالکل نہیں بدلا۔ بلکہ بد سے بدتر ہوگیا ہے ۔ ہر ایک تعلیم یافتہ نوجوان کو یا تو کسی مافیا کا پی آر او اور سوشل میڈیا پر کسی کرپٹ گروہ کا کرایہ دار بنایا گیا ہے جہاں صرف ناموں کے آگے "ہر دل عزیز" جیسے القابات لگانے کے کام پر بھرتیاں جاری ہیں یا منشیات، خود کشی اور لاپتہ ہونے کیلیئے۔ ورنہ شھداد، احسان اور آفتاب کی طرح تصاویر کسی انقلابی بلوچی یا برائیوی گانے پر لگا کر اسٹیٹس بن جانے کا راستہ ہے۔
مزیدخبریں