پھر وہی جنسی حملے نفرت اور انتقام کی سیاست، مختلف کیا ہے؟

09:54 AM, 4 Jun, 2022

اقصیٰ یونس

سیاست کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ گندہ ہے پر دھندہ ہے مگر اب اسکی جھلک ہمیں بہت سے سیاستدانو ں میں نظر آتی ہے ۔ سیاست میں جس بدتمیزی ، اخلاقیات سے عاری، غیر شائستہ اور نامناسب گفتگو کو پروان چڑھایا جارہا ہے یوں لگتا ہے جیسے ہماری سیاست گندے پانی کا ایک جوہڑ بن چکی اور جو بھی اس جوہڑ میں آئے گا وہ خود کو بھی اس آلودگی سے محفوظ نہ رکھ پائے گا ۔

یوں لگتا ہے یہ جنونیت اور شدت پسندی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے ۔ کبھی کسی کو درمیانہ کہہ کر اس کا مذاق بنایا گیا تو کبھی انتہائی نامناسب اور غیر شائستہ گفتگو ان سیاسی جلسوں میں گونجتی نظر آتی ہے ۔ کبھی مذہب کارڈ کے نام پہ کسی پہ کیچڑ اچھالا جا رہا ہے ۔ مگر اس سب سے بڑھ کر حیرت اس چیز پر ہے کہ سیاسی کارکن اپنے سیاسی آقاؤں کے نہایت نامناسب اور اخلاقیات سے عاری بیانات پہ حجت کرتے نظر آتے ہیں۔

کچھ دن قبل عمران خان نے اپنے جلسے میں مریم نواز کیلئے نہایت نامناسب جملہ کہا جبکہ ہم یہی خیال کرتے تھے کہ عمران خان باقی تمام سیاست دانوں سے مختلف ہیں اور ان کا نعرہ اور انکی پارٹی کا منشور بھی یہی تھا کہ وہ دوسروں سے الگ ہیں۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ان کے جلسوں میں خواتین بھی محفوظ ہوتی ہیں کیونکہ ان کے جلسے میں خواتین کا کوئی بھی واقعہ کبھی رپورٹ نہیں ہوا۔ اب انہی ہزاروں خواتین کے سامنے عورت کیلئے نامناسب جملے کہنا انتہائی شرم کی بات ہے۔

اس طرح ایک جملے کے ذریعے انہوں نے، حقوق نسواں کی تحریکوں کی عشروں پہ محیط جدوجہد کو رگڑ کر رکھ دیا ہے۔ جب کوئی مرد کسی عورت کو جنسی جملے کا نشانہ بناتا ہے تو اس کا مقصد عورت کی عزت خراب کرکے اسے پیچھے ہٹانا ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس پدرشاہانہ معاشرے میں چاہے غلطی مرد کی ہو عورت کو یہی تلقین کی جاتی ہے کہ وہ عزت کی خاطر چپ رہے۔

نسوانی تحریک جو دہائیوں پہ مشتمل ہے نے کئی سال لوگوں کو یہ سمجھانے میں لگائے کہ جنسی جملے بازی غیر انسانی ہے، جنسی تفریق پہ مبنی اور ایک پدرشاہی معاشرے کی نشاندہی کرتی ہے اور آدھی آبادی کو زندگی کی دوڑ میں پیچھے کرنے کی روش ہے۔ جب لاکھوں لوگوں کا آئیڈیل رہنما جنسی جملے بازی کرتا ہے تو وہ اگلی دو نسلوں کو اس گندی حرکت میں دھکیل دیتا ہے

جنسی جملہ بازی تفریق کی ایک دیوار قائم کرتی ہے ۔ یعنی جب مردوں سے کوئی بحث یا جھگڑا ہو تو کبھی بھی اسکی جنسیت یا جسم کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ بلکہ اگر ایسا کیا بھی جائے تو ایسے عورت یا ہجڑہ کہہ کر عورت ہی کی توہین کی جاتی ہے۔ دوسری جانب جب یہی تکرار کسی عورت سے ہو تو فوراً اسکی جنسیت اور جسم نشانے پہ رکھا جاتا ہے ۔

اک ستر سالہ سیاسی رہنما، مخالف سیاسی رہنما خاتون کو یہ جنسی طعنہ مارتا ہے۔ تو اس میں، اصل میں غلط ہے کیا؟ اسے ہم دو مختلف پہلو سے دیکھ سکتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ کہ جب آپ کے پاس کو ئی مضبوط دلیل یا حوالہ موجود نہ ہو۔ تو آپ نہایت غیر سنجیدہ انداز میں تیسرے درجے کے تھیٹر اداکار کی طرز پہ جنسی جملے بازی کرتے ہیں۔ یہ انتہائی قبیح عمل ہے۔

دوسری بات یہ کہ دنیا بھر میں مردوں کی جانب سے، جب وہ خواتین کا مقابلہ نہیں کر پاتے تو، جنسی اور ذو معنی جملے اچھالے جاتے ہیں۔ ان پہ ہنسا جاتا ہے۔ تھڑا لگایا جاتا ہے اور خواتین کو زچ کر کے میدان سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس عمل کو دنیا بھر میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ قابل نفرت عمل دنیا میں گھریلو سطح سے لے کر ہر قسم کی ورک پلیس اور بین الاقوامی سطح تک کیا جاتا ہے۔

نوے کی دہائی میں نون لیگ کے رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو کو اسی قسم کی جنسی جملے بازی کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ اس جملے بازی کے سرخیل شیخ رشید احمد تھے۔ اتفاق کی بات ہے آج شیخ رشید احمد تحریک انصاف کے اتحادی ہیں اور اس بڑھاپے میں بھی اسی قسم کی جنسی جملے بازی بلاول بھٹو زرداری کے خلاف کرتے ہیں۔ کیا کسی انسان کا ضمیر اتنا ڈیڈ، یا ڈیجیٹل الفاظ میں ’ناٹ ریسپانڈنگ‘ ہو سکتا ہے کہ وہ مسلسل دو نسلوں کو نشانہ بنائے؟ مگر اس ملک میں یہ ہو رہا ہے۔ اور ان کو روکنے والا کوئی نہیں۔

دراصل تحریک انصاف کے سربراہ تنقید کی بجائے تحقیر پہ یقین رکھتے ہیں۔ وہ اچکزئی سے لے کر بلاول تک سب کی نقل اتار چکے ہیں۔ توہین آمیز انداز میں بلاول کو خاتون کہہ چکے ہیں اور یہی سوچ بتاتی ہے کہ وہ خواتین کو بالکل بھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔

وہ لوگ جن کے پاس خان صاحب پر ہر تنقید کی مخالفت کرنے کے لیے محض موجود جواز اس سوچ پر مبنی ہوتا ہے کہ ہماری تنقید ہمارے اپوزیشن کے حق میں ہونے کی وجہ سے ہے ان کے لیے گزارش ہے کہ حال میں رہ کر حال کی بات کرتے ہیں ماضی کے جڑے مردے اکھاڑنے سے فائدہ نہیں ہوتا ۔ہمارا سوال یہ ہے کہ خان صاحب ان سے کیا مختلف لائے ہیں وہی نفرت اور نتقام کی سیاست، وہی ہتک آمیز جملے، وہی جنسی حملے ۔ ہمارے لیے اپنی کارکردگی اور اخلاقیات میں۔۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بد تہذیبی، بد اخلاقی اور غیر معیاری کارکردگی ، قول و عمل کے تضاد میں پچھلوں سے چار قدم بڑھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں چنانچہ ہمارے اخذ کردہ نتائج ہمارے غیر جانبدار شعوری مشاہدے اور حقیقت کے پراسس پر مبنی ہیں نا کہ جذباتیات کی عینک سے دیکھنے پر۔

واصف صاحب فرماتے ہیں کہ اگر ماضی کفر ہو تو حال کلمہ پڑھ کے مومن ہو سکتا ہے تو بات یہ ہےکہ اگرغیر جانبدار مشاہدہ کیا جائے تو حال میں پچھلوں نے چوٹیں کھا کھا کر کافی کچھ سیکھ لیا ہے گو کہ ہم کبھی ان کے حامی نہیں رہے بالکل اسی معیار پر جس پر خان صاحب کے نہیں ہیں لیکن کم از کم حال کا سچ یہ ہے کہ اب پچھلوں کے رویوں اور اخلاقیات میں بہت درجے بہتری نظر آئی ہے، جیسے بلاول کا خان کو سراہنے کا اقدام، شہباز کا بدلے کی سیاست ترک کرنے کا اعلان وغیرہ وغیرہ۔

لیکن خان صاحب کی انا قوم کی اخلاقیات اور سلامتی کا جنازہ نکالے بغیر ٹھنڈی ہوتی دکھائی نہیں دیتی ۔بہتر یہ تھا کہ یہ درست طریقے سے جذباتی ذہانت ، عقل و حکمت ، قول و فعل میں یکسانیت اور نمایاں کارکردگی اور بہترین اخلاقیات پر مبنی سیاست کرتے اور اس ذریعے سے واقع ہی میں منفرد ہونے کا ثبوت دیتے۔

قوم کی حالت اس سے بھی زیادہ افسوسناک ہے اندھی تقلید کے رویے دیکھ کر گویا ہم نے کھائیوں سے نکل کر کسی گہرے اندھے کنوئیں میں گرنے کا ارادہ باندھ لیا ہے اور اندیشہ ہے کہ ہمارے حالات بھی سری لنکا جیسے ممالک سے کم دکھائی نہیں دیتے۔ مستقبل میں ہم صرف خدا کی پناہ ہی طلب کر سکتے ہیں لیکن اس کے بھی پناہ دینے کے اصول ہیں کیونکہ اس نے انسان کو ارادہ و اختیار کی طاقت دے رکھی ہے اور وہ لوگ جو خود اندھے کنوئیں میں گرنے کا عزم کر چکے ہوں پھر اپنی بد حالی پر قطعی طور سے خدا کو تو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔
مزیدخبریں