پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں قریباً آبادی میں بڑی برادریوں میں سے پائی جانے والی ایک برادری 'بٹ" قوم ہے مگر افسوس کے انہیں اپنی برادری کی تاریخ اور اصل کا معلوم ہی نہیں بلکہ اگر کوئی اس حوالے سے توسیع کرنا چاہے تواس کو ماننے سے واضح انکاری بھی نظر آتے ہیں۔
ہندوستان اور کشمیر کئی ہزار سالوں سے اپنی ثقافت، برادری اور روایات رکھتے ہیں جہاں مختلف قومیت کے افراد کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے ۔خصوصاً اگر کشمیر کا تذکرہ کیا جائے تو برہمن پنڈٹ وہ قوم وہ برادری تھی جو وہاں کے راجا مہاراجا سے بھی افضل سمجھی جاتی تھی براہمن پنڈتوں کو "بٹا" کے نام سے بھی پکارہ جاتا ہے اب یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ پنڈت کوئی ہندو قوم یا مذہب کے پیشوا کا لقب نہیں بلکہ عزت دار اور افضل قوم والوں کو کہا جاتا تھا اور آج بھی کشمیر میں کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی کشمیر میں کئی مسلمان اپنے ناموں کے آگے پنڈت لگاتے ہیں اور فخر کرتے ہیں کہ ان کے آباو اجداد برہمن پنڈت قوم سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے کئی مواقعوں پر مزاحمت اور بہادری کی تاریخ قائم کی ہے۔ تاریخ دانوں نے بٹ برادری تاریخ کو بڑے واضح الفاظ میں بیان کیا ہے جس سے ایک بات توبڑی واضح ہے کہ بٹ قوم ہی بھٹ ہے اوران کی اصل برہمن پنڈٹ ہیں جو کشمیر کی سب سے اونچی ذات مانی جاتی تھی۔
تاریخ دانوں اور کشمیری بزرگوں کے مطابق کشمیر میں اصل نسل پنڈت نہیں تھی بلکہ جین تھے اور بعد میں بدھ مت تھے۔ اس کے بعد پنڈتوں کا یہاں راج ہو گیا۔ جن مسلمانوں نے اپنے ساتھ پنڈت لگا رکھا ہے وہ اسلام قبول کرنے سے پہلے سب سے اعلیٰ درجے پر تھے۔ یہ برہمنوں میں بھی سب سے بڑا طبقہ تھا۔ دوسرے کشمیری مسلمانوں نے ان مسلمانوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا جنہوں نے پنڈت اپنے نام کے ساتھ جوڑ کر رکھا ہے۔ کشمیری مورخ یوسف ٹینگ اس حوالے کئی بار وضاحت کر چکے ہیں کہ کشمیری پنڈتوں کو ہندو نہیں کہتے تھے، انھیں پنڈت کہتے تھے۔ پنڈت کا مطلب برہمن ہے اور برہمن استاد کو بھی کہتے ہیں۔'
جو مسلمان پنڈت ہیں یہ کشمیر کے اصل باشندے ہیں۔ یہ باہر سے نہیں آئے ہیں۔ اصلی کشمیری تو یہ پنڈت ہی ہیں۔ ہم مسلمان بھٹ کیوں لکھتے ہیں کیونکہ ہم نے مذہب تبدیل کیا ہے۔ پنڈت بھی بٹ لکھتے ہیں۔ بٹ کا مطلب ہے پنڈت جسے ہم کشمیری میں بٹا کہتے ہیں یعنی کشمیر کا ہندو پنڈت۔
بٹ قوم میں ہندو اور مسلمان دونوں پائے جاتے ہیں۔ سنہ 1891 کی مردم شماری کی ریاستی رپورٹ میں بٹ فرقہ کا اصل نام کارکن پنڈتوں کی ایک ذات بٹھارک کا مخفف بھٹ ہی بتایا گیا ہے۔ سر والٹر لارنس اپنی تاریخ میں ان کی اصل برہمنوں سے ثابت کرتے ہیں مصنف تاریخ گلشن کشمیر نے بھی انہیں برہمن لکھا ہے اور کشمیر کے جغرافیہ ملحقہ راج ترنگنی کلہن سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ برہمن تھے۔
راج ترنگنی کلہن کے فٹ نوٹ 103 میں بھی دراس، لداخ، سکردو وغیرہ کی بھٹ یا بھوٹ اقوام کو بھی بٹ ہی ظاہر کیا گیا ہے۔ ہندو عہد قدیم کے آخری ایام میں بزمانہ راجا راج دیو (1218ء تا 1242ء) جب لون اور دیگر فرقوں کا زور کم ہوا تو فرقہ بٹ نے راجا کے خلاف شورش شروع کر دی جس کی وجہ سے راجا نے برہمنوں کے قتل عام کا حکم دے دیا۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ ہر طرف قتل عام ہونے لگا بٹوں نے اپنی ذات بدل لی، شکلیں بدل لیں اور کئی دوسرے ملکوں میں نکل گئے اور تاریخ گلدستہ کشمیر کے مطابق اب تک کشمیر میں یہ مثل زبان زد عام ہے کہ "نہ بٹوام" یعنی میں بٹ نہیں ہوں۔
اب یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ یہ تمام تاریخ جو قوم بٹ سے متعلق واضح ہے اسے عام طور پر تھوڑی سے ریسرچ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے چاہے آپ چند تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کر لیں یا کسی تاریخ دان سے گفتگو کر لیں یا آن لائن ویکیپیڈیا سمیت گوگل ہسٹری سے معلوم کر لیں مگر افسوس کہ ہم اپنی اصل کو پہچاننے کے ساتھ ماننے کو بھی تیار نہیں اور اپنے خیالی تاریخی پلاؤ میں گم رہنا چاہتے ہیں۔
بٹ پاکستان میں اور بھارت میں بھٹ بولا جاتا ہے، یہ قوم خود میں کئی گوت رکھتی ہے یہ لوگ کشمیر سے تب نکلنا شروع ہوئے جب ڈوگرہ راجپوتوں نے ان کو مسلمان ہونے پر طرح طرح سے تکالیف پہنچائی، اس قوم کے کافی لوگ پنجاب میں آ گئے اور یہی اپنا کام کاج کرنے لگے۔ گوجرانوالہ میں ان کی تعداد کافی زیادہ ہے۔
ہندوستا ن کو مذہب اسلام کی شناخت تقریباً 11 سو سال قبل ملنا شروع ہوئی اور یہاں پر اسلام کا پرچار اور پھر عروج ہوا مگر ہندوستان کی وہ متحدہ سر زمین جس میں پاکستان ، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، افغانستان کا کئی حصہ اور بے شمار سلطنتوں پر پھیلی ثقافتوں کے مختلف رنگ اور خون کے رشتے کئی ہزار سال پرانے ہیں جن کو ہم چاہ کر بھی خود سے جدا نہیں کر سکتے۔