سرائے نورنگ بازار کے ایک ہوٹل میں بیٹھ کر 22 سالہ نوجوان جو آئس کا نشہ کرتا ہے نے بتایا کہ اگر "ایک بار آئس کی لت لگ جائے تو یہ آسانی سے نہیں چھٹتی" شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نوجوان نے کہا کہ آئس کا نشہ دوست کیساتھ شروع کیا تھا اور اب عادی بن چکا ہوں۔ اس نے کہا کہ آئس پینے سے مجھے ذہنی اور جسمانی سکون ملتا ہے۔ مجھے 48 گھنٹوں تک نیند نہیں آتی، لیکن جب یہ نشہ نہیں کرتا تو پھر بے آرمی ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ میرا دماغ پھٹ جائے گا۔
نوجوان پرائیوٹ تعلیم حاصل کر رہا ہے اور اس نے ٹیکنیکل ڈپلومہ بھی کیا ہوا ہے۔ آئس کو خریدنے کے حوالے سے بتایا کہ گھر والے والوں کو شک ہو چکا ہے، اس لئے اب گھر سے پیسے نہیں ملتے البتہ دوست آئس خریدنے میں مدد دیتے ہیں۔ نوجوان نے کہا آئس مہنگا ہے لیکن لکی مروت میں آسانی سے مل جاتا ہے۔ ایک گرام 1000 سے لے کر 3000 روپے تک مل جاتا ہے۔
مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں پچھلے 6 سالوں سے آئس کے استمعال میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ پہلے یہ نشہ صرف امیر طبقے تک محدود تھا اور اب عام ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان اینٹی نارکورٹکس فورس کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 70 لاکھ لوگ نشہ کرتے ہیں۔ آئس کا نشہ زیادہ تر تعلیمی اداروں، کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کرتے ہیں۔
لکی مروت میں آئس کا نشہ کیوں بڑھ رہا ہے؟
لکی مروت میں آئس کی روک تھام کیلئے ضلعی محکمہ پولیس نے اب تک سال 2021 میں آئس کے 53 مقدمات درج کیے اور 54 ملزمان گرفتار کیے، جن سے 12 کلو 981 گرام آئس برآمد ہوئی۔ جبکہ سال 2022 مئی تک 33 مقدمات درج اور 34 ملزمان گرفتار ہوئے جن سے 12 کلو 675 گرام ائس برامد ہوئیں۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر لکی مروت عمر عباس بابر نے کہا کہ ہمارے یہاں آئس کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آئس سمیت ہر نشہ کیلئے وسائل چاہیں اور نوجوانوں کو وسائل گھر ہی سے ملتے ہیں۔ گھر والے ان سے یہ نہیں پوچھتے کہ پیسے کہا خرچ کئے۔
ڈی پی او نے کہا کہ لکی مروت میں زیادہ تر نوجوان بیروزگاری اور ہنر نہ ہونے کی وجہ سے منشیات کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر دوسری اہم وجہ امن وامان ہے۔ دہشتگردی کی وجہ سے بھی منشیات فروشی میں اضافہ ہوتا ہے۔ دہشتگرد تنظیموں کی آمدن کا اہم ذریعہ آئس، چرس اور ہیروئین ہیں۔ جب بھی کہیں امن وامان کی حالت خراب ہوتی ہے تو یہ کاروبار پروان چڑھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں افغانستان میں جب حالات تبدیل ہوئے تو اس کے بعد سے پاکستان بالخصوص جنوبی اضلاع میں یہ کاروبار پروان چڑھ رہا ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ مستقبل میں ہمیں منشیات کے خلاف بڑی کارروائیاں کرنی پڑیں گی۔ آئس کی خرید وفروخت میں پولیس اہلکاروں کے ملوث ہونے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ڈی پی او نے کہا کہ اس حوالے سےعوام کی شکایت کچھ حد تک درست ہیں۔ پولیس والے منشیات فروشوں کو چھاپہ پڑنے سے پہلے اطلاع دیتے ہیں، لیکن بحیثیت ادارہ پولیس منشیات فروشی میں ہرگز ملوث نہیں ہے۔
آئس نشہ کے اثرات
لکی مروت ڈسٹرکٹ ییڈ کوارٹرز ہسپتال میں کنسلٹنٹ نیورو سرجن ڈاکٹر عبدلواجد نے کہا کہ اکثر والدین ان سے رابطہ کرتے ہیں کہ ان کا بچہ آئس کا نشہ کرتا ہے۔ میں نے کئی ایسے کیس دیکھے ہیں جن کی حالت خراب ہو چکی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ آئس نشہ میتھ ایمپٹامین نامی کیمیکل سے بنتا ہے۔ یہ انسان کے دماغ پر اثر انداز ہو کر اسے تیز کر دیتا ہے۔
ڈاکٹر نے مزید کہا کہ بنیادی طور پر آئس کے دو طرح کے اثرات ہوتے ہیں ایک فوری اور دوسرا طویل مدتی۔ آئس پینے سے وقتی طور پر مریض کو خوشی محسوس ہوتی ہے لیکن اسے کے فوری اثرات میں مریض کی دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ آنکھوں کی پتلیاں پھیل جاتی ہیں۔ بھوک نہیں لگتی۔ نیند نہیں آتی اور مریض انتہائی ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی زیادہ مقدار میں آئس پینے سے مریض کو دل کا مسئلہ پیش آتا ہے۔ سانس لینے میں دشواری پیش آ جاتی ہے جس سے وہ مرجا تا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ طویل مدتی اثرات میں آئس انسان کی مرکزی اعصابی نظام کو آہستہ آہستہ متاثر کرتی ہے۔ اس میں مریض کا موڈ آف ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت غصہ میں رہے گا اور اس کو تھکاوٹ زیادہ ہوگی۔ متاثرہ فرد کو بھوک نہیں لگتی، شہوت بالکل ختم ہو جاتی ہے اور بدن پر خارش شروع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح طویل مدتی اثرات میں مریض پر ایک قسم کا خوف طاری ہو جاتا ہے۔ وہ ہیلوسینیشن میں چلا جاتا ہے،اور مریض کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی اسے مار دیگا۔
لکی مروت میں منشیات کی روک تھام
لکی مروت کا شمار خیبر پختونخوا کے پسماندہ اضلاع میں ہوتا ہے۔ یہاں لوگ صحت سمیت دوسری بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ ضلع لکی مروت کے ڈی پی او عمر عباس نے اس حوالے سے کہا کہ لکی مروت میں نوجوانوں کو وہ سہولیات میسر نہیں ہیں جو خیبر پختونخوا کے دوسرے اضلاع کے نوجوانوں کو ہیں۔ اس کا بنیادی حل یہ ہے کہ منشیات کی طلب کو ختم کیا جائے۔
ڈی پی او نے مزید کہا کہ اس میں پولیس کے ساتھ دیگر محکموں اور اداروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ایک ایسا ایکشن پلان بنانا ہوگا جس میں ہر محکمے کی نمائندگی ہو اور مختلف تنظیمں اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ والدین اپنے بچوں کے سکول، کالجز کے بعد کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں اور خاص کر نومنتخب نمائندے سپورٹس اور دیگر صحت مندانہ سرگرمیوں کا انعقاد کریں۔ ڈی پی او نے کہا کہ منشیات کی فیکٹریوں، ایجنٹوں، اور سپلائرز کے خلاف بلاتفریق کاروائی ہونی چاہی۔
کیا آئس سے متاثرہ افراد ٹھیک ہو سکتے ہیں؟
یاد رہے! لکی مروت میں منشیات سے متاثرہ افراد کیلئے بحالی کا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر عبدلواجد نے بتایا کہ آئس نشے کا شکار بندہ واپس بہتری کی طرف آ سکتا ہے۔ تین مہینے سے لے کر 12 مہینے تک وہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ متاثرہ افراد کو زندگی کی طرف واپس لانے میں علاج، گھر میں نگہداشت اور مسلسل کنسلٹیشن کی ضرورت ہے۔ آئس ایک خطرناک اور جان لیوا نشہ ہے۔ کینسر تو ایک بیماری ہے انسان کی جان لے سکتا ہے لیکن آئس ایک پوری نسل کی تباہی ہے۔