چونکہ پاکستان میں گذشتہ 20 سال سے دہشتگردی کی تعریف صرف اسلحہ، بارود، کشت و خون، طالبان کے بم دھماکوں اور سکیورٹی فورسز کے آپریشنز کے تناظر میں ہی کی گئی ہے۔ اس لئے ہم پاکستانی، دہشتگردی کو ان لوازمات کے بغیر سمجھنے اور سوچنے اور اسکے خلاف جد و جہد کرنے سے قاصر ہیں۔اسی لئے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں لکھاری کے طور پر جانے جانے والے ایک ایسے دہشت گرد کو جو دہشت گردی کی ہر تعریف پر پورا اتراتا ہے، تاحال کسی نے اس پیرائے میں نہیں دیکھا۔اس دہشت گرد کا نشانہ خواتین ہیں۔
ان کو محکومیت کے دائرے میں رکھنے اور ان کی حقوق کی ہر جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے لئے ہر طرح کی نیچ سے نیچ حرکت اس کی حکمت عملی کا خاصہ ہیں۔ وہ بہروپیہ ہے، تاہم منافقت اس کا بہترین ہنر ہے۔ البتہ وہ ظاہری طور پر مصنوعی غرور، خالص کمینگی اور انتھک کوشش کے ساتھ رعب دار لب و لہجے کی نقالی لئے ہر جا ہیجانی کیفیت میں پایا جاتا ہے۔
ویسے تو وہ گزشتہ دو دہائیوں سے اپنا زہر اگل رہا ہے۔ تاہم نئی صدی کے آغاز سے ملک میں آنے والے ٹی وی انقلاب کے بعد اس کے حلقہ اثر میں اضافہ ہوا۔ جبکہ ملک کے طاقتور حلقوں کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں حالیہ دلچسپی اور جناب کی ’بڑوں‘ کو خوش رکھنے کی ’لا محدود‘ صلاحیت نے اب اس کے اثر کو طفیلی طاقت و قوت بھی بخش دی ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے اس نے خوبصورت شام کے عین جوبن پر دہشت گردی کی وہ گھناؤنی واردات لائیو ٹی وی پر بیٹھ کر کی کہ جس کا تعفن اب بھی فضا میں محسوس ہو رہا ہے۔
تخیلاتی کوڑھ پن کا شکار یہ دہشتگرد، اپنے دوست اینکر کی اینکر بیگم کے شو میں بلایا گیا۔ شو میں عورت مارچ کے حوالے سے بحث ہونا تھی۔ دوسری جانب مارچ کے حق میں متنازع رائے رکھنے والی ایک خاتون کارکن تھیں اور درمیان میں ایک مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے باریش صاحب۔
مذکورہ دہشت گرد کو شاید عورت مارچ کا ذکر یوں ہی محسوس ہوا جیسے کسی زمانے آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کا سن کر دہشت گرد اور ان کے حامی ہیجانی کیفیت میں چیخنے چلاتے پائے جاتے۔ چونکہ اس دہشتگرد کو پلیٹ فارم مہیا کیا گیا تھا اس لئے اینکر ’بھابھی‘ نے اسے روکنا بھی مناسب نہ خیال کیا۔اس کا مکمل فائدہ اٹھاتے ہوئے عورت کی عزت، اس کے وجود، اس کے حقوق، اور ان حقوق کے لئے اس کی جدوجہد کے تصور پر نفرت غلاظت اور دہشت کی اتنی فائرنگ کی گئی جس سے اس دہشت گرد کے ہیجان کو سکون نصیب ہوا۔
ہم بطور قوم ہر سانحے کے بعد سیکھتے ہیں۔ اگر ہم سمجھیں تو کل رات بھی ایک دلخراش سانحہ گزرا ہے۔
اس کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ اس دہشت گرد کو معاشرے میں مزید بگاڑ پیدا کرنے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے روک دیا جائے۔ اس سے اس کی دہشت گردی میں معاون تمام ذرائع چھین لیے جائیں اور اس کے تمام معاونین ’بھائیوں‘ ’بھابھیوں‘ کا نیٹ ورک بھی توڑا جائے۔ساتھ ہی ساتھ ’طاقت کے ایوانوں‘ سے اس دہشت گرد کو ملنے والی طفیلی طاقت کو ختم نہیں تو کم از کم ابتدا میں بے نقاب کیا جائے۔ اس سب کے لئے ایک آپریشن ’رد الفساد‘ کی ضرورت ہے جس کے کئی مقاصد میں سے ایک اس دہشتگرد کا قلع قمع ہو۔اس کے لئے زیادہ دور جانے کی بھی ضرورت نہیں۔
8 مارچ کو ہونے والا عورت مارچ عورتوں کے خلاف فساد کے لئے آپریشن رد الفساد کا آغاز ہو سکتا ہے جو خواتین کے خلاف دہشتگردی کے اس نیٹ ورک کی ’قمر‘ توڑ کر رکھ دے۔