وفاقی دارالحکومت کی پولیس نے گزشتہ روز نیشنل پریس کلب پر احتجاج کرنے والے بلوچ طلبہ اور ایمان مزاری سمیت 200 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس کے خلاف ایمان مزاری نے آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
درخواست کی سماعت ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کہا کہ کیا ایف آئی آر درج ہوئی ہے؟ جس پر ایمان مزاری کی وکیل نے آگاہ کیا کہ ہماری معلومات کے مطابق ایف آئی آر درج کر کے سیل کر دی گئی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایس ایس پی صاحب اس عدالت کے دائرہ اختیار میں کیا ہو رہا ہے، احتجاج کرنے والے بلوچستان کے طلبا کی بات سنی جانی چاہیے۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ طلبا کے احتجاج پر آپ بغاوت کے مقدمے درج کر دیتے ہیں، بغاوت کے مقدمے تو ان کے خلاف ہونے چاہئیں جنہوں نے ان کی آواز دبائی۔
ایس ایس پی آپریشنز نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ طلبہ کے احتجاج میں پولیس کے تین اہلکار زخمی ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت یہ سب برداشت نہیں کرے گی کہ اس کی حدود میں کسی کی آواز دبائی جائے، کسی کی بھی بالخصوص بلوچستان کے طلبا کی آواز دبانے کی کوشش برداشت نہیں کی جائے گی۔
انہوں نے مزیدکہا کہ طلبہ کی آواز دبانا درحقیقت بغاوت ہے، ساتھ ہی استفسار کیا کہ کتنے طلبا زخمی ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ یہ عدالت ایک کمیشن تشکیل دے، یہاں پر ایک آئین ہے اور عدالت تنقیدی آوازیں دبانے کی کوشش برداشت نہیں کرے گی، ایس ایس پی صاحب آپ اس کیس میں کسی کو گرفتار نہیں کریں گے۔
عدالت نے کہا کہ ضروری نہیں کہ پولیس ہر ایک کو گرفتار کرے، سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں۔
بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر اور آئی جی اسلام آباد کو طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ تینوں افسران 7 مارچ کو عدالت کے سامنے ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔
ساتھ ہی عدالت نے آئندہ سماعت تک پولیس کو مقدمے میں گرفتاریوں سے روک دیا اور صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سے معاونت طلب کر لی۔
وفاقی وزیر شیری مزاری کی بیٹی وکیل ایمان مزاری نے اندارج مقدمہ ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے ایف آئی آر کی کاپی فوراً فراہم کرنے اور اس کا آپریشن معطل کرنے کی استدعا کی۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ ایف آئی آر سیل کرنا اور کاپی فراہم نہ کرنا قانون کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیا جائے اور ایف آئی آر کی کاپی اور وقوعہ کا تمام ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا جائے۔
درخواست میں ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ سیل کی گئی ایف آئی آر کا آپریشن معطل کیا جائے تاکہ کوئی زیر التوا کیس کے دوران ہراساں نہ کرے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا بلوچ طلبا پر پریس کلب کے سامنے پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور پھر مجھ سمیت سب پر ایف آئی آر درج کی۔
ان کا کہنا تھا کہ پریس کلب کے باہر طلبہ جبری گمشدگیوں کے خلاف اور اپنے حقوق کے لیے احتجاج کر رہے تھے، آزادی رائے آئینی حق کو استعمال کرتے ہوئے پریس کلب کے باہر طلبہ کے احتجاج میں گئی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پریس کلب کے باہر پولیس نے پرامن طلبہ پر لاٹھی چارج کیا پھر میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ پولیس نے مقدمہ درج کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی معلوم ہوا کہ ایف آئی آر میں بغاوت کی دفعات شامل ہیں، پولیس ایف آئی آر کی کاپی فراہم کرنے سے بھی انکاری ہے اور مجھے گرفتاری کا بھی خدشہ ہے۔
درخواست میں سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور تھانہ کوہسار کے ایس ایچ او کو فریق بنایا گیا۔
خیال رہے کہ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنے پر بیٹھے طلبہ پر ایف آئی آر درج کی گئی تھی، ایف آئی آر کے مطابق مظاہرین نے یکم مارچ کو نیشنل پریس کلب کے سامنے اور کیمپ کے باہر پولیس پر پتھر برسائے، کیمپ داد شاہ، ایمان مزاری اور قمر بلوچ کی سربراہی میں بلوچ اسٹوڈنٹ کونسل نے لگایا تھا جس میں 200 طلبہ شریک تھے۔
طلبہ میں زیادہ تر کا تعلق قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے تھا جو خضدار سے اپنے ساتھی حفیظ بلوچ کی پراسرار گمشدگی کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔
مقدمے میں کہا گیا کہ پولیس کے انتباہ کے باوجود مظاہرین نے ٹینٹ لگایا جو پولیس کو بزور طاقت اپنے قبضے میں لینا پڑا جس کے نتیجے میں جھڑپ ہوئی۔
بعدازاں طلبہ پولیس کو دھکیلتے ہوئے چائنا چوک پہنچے اور دھرنا دے دیا جہاں ان کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا۔
پولیس نے طلبہ کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا جس کے نتیجے میں پولیس اور مظاہرین گتھم گتھا ہوگئے جس کے بعد ایس ایس پی آپریشنز اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے موقع پر پہنچ کر امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے طلبہ سے مذاکرات کیے۔
پولیس اور طلبہ کی جھڑپ کے دوران 6 طالب علم اور انسداد فسادات یونٹ کے 2 افسران بھی زخمی ہوئے۔