اپنے ٹوئٹر پر اپلوڈ کی گئی ایک ویڈیو میں کامران خان کہتے ہیں کہ آج پاکستان کو غیر دانشمندانہ خارجہ پالیسی کی وجہ سے سنگین خطرات کا سامنا ہے۔ پہلے ہم نے اپنے سارے انڈے چین کی ٹوکری میں رکھ دیے اور جو بچے تھے وہ روس کی ٹوکری میں رکھ آئے ہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ ماہ عمران خان دورۂ روس پر ماسکو گئے تھے جہاں ان کی قریب ڈھائی گھنٹے روسی صدر ولادمیر پوٹن سے ملاقات ہوئی اور عین اس وقت جب وزیر اعظم روس پہنچے تھے تو روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا تھا جس نے نیٹو اور روس کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا تھا اور دنیا یکایک ایک عالمی جنگ کی طرف بڑھتی دکھائی دے رہی تھی۔ امریکہ اور مغربی یورپ ہی نہیں، مشرقی یورپ میں بھی اس جنگ کے حوالے سے شدید پریشانی پائی جاتی تھی کیونکہ روس اگر ایک مشرقی یورپی ملک کے خلاف جارحیت دکھا سکتا تھا تو یہ طے تھا کہ باقی ممالک بھی اس قسم کی جارحیت سے محفوظ نہیں۔
ایک ایسے موقع پر کہ جب مغربی دنیا سے روس کے خلاف تند و تیز بیانات آ رہے تھے، وزیر اعظم عمران خان روسی صدر کے ساتھ کھڑے دکھائی دیے اور یقیناً مغربی دنیا کو اس سے یہی پیغام ملا ہوگا کہ پاکستان اب مغرب مخالف کیمپ کا حصہ بن چکا ہے۔
کامران خان بھی اسی حوالے سے خائف ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ چین- روس کیمپ میں جا بیٹھنا اور مغربی دنیا سے دوری، زمینی حقائق سے دور ایک غصیلا فیصلہ ہے۔ کیسی متوازن خارجہ پالیسی ہے یہ کہ عمران خان روس کے یوکرین پر حملے والے روز صدر پوٹن کی میزبانی سے لطف اندور ہوتے ہیں، روسی فوجوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں لیکن گلاسگو میں ماحولیات پر عالمی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لئے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی دعوت مسترد کر دیتے ہیں؟ چینی صدی شی جن پنگ سے صرف 20 منٹ ملاقات کو خوش قسمتی سمجھتے ہیں مگر بائیڈن ڈیموکریسی سمٹ میں شرکت کی دعوت رد کرتے ہیں۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل کا اقتدار ختم ہو گیا لیکن ان کی دعوت پر دورۂ جرمنی کا عمران خان صاحب کو وقت نہ ملا۔ کامران خان کے مطابق مغربی دنیا اور پاکستان کے درمیان خلیج خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔
سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ یہ بات یقیناً ناپسندیدہ بات تھی کہ صدر بائیڈن نے عمران خان کو فون نہیں کیا لیکن اس کا ہماری حکومت نے خود ہی ڈھنڈورا پیٹا اور اپنا مذاق بنوایا حالانکہ یہ معاملہ خاموش سفارتکاری کے ذریعے خوش اسلوبی سے طے پا سکتا تھا۔ عمران خان کے دورۂ روس نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ پاکستان مغرب مخالف روس- چین کیمپ میں جا بیٹھا ہے۔
"مجھے اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہ ہوتا اگر ہمیں بتایا جاتا کہ اب پوٹن نے فیصلہ کیا ہے کہ روس پاکستان میں گیس پائپ لائن آسمانی منافع والی قیمت پر نہیں بلکہ سستی تعمیر کرے گا۔ یا ہمیں پتہ چلتا کہ پاکستانی برآمدات کے آئندہ مراکز امریکہ اور یورپ نہیں بلکہ چین اور روس ہوں گے۔ یا پاکستان کی سالانہ ترسیلات کا 50 فیصد حصہ اب امریکہ اور یورپ نہیں بلکہ چین اور روس سے آئے گا۔ یا عمران خان فرماتے کہ ہماری 100 فیصد آئی ٹی برآمدات اور آئندہ ترقی امریکہ یا یورپ سے نہیں بلکہ چین اور روس سے منسوب ہوں گی۔ ہم چین- روس بلاک کا حصہ بننے پر دھمال ڈالتے اگر عمران خان بیجنگ سے خبر لاتے کہ چین CPEC بجلی گھروں کا ناقابلِ یقین 25 فیصد منافع کم کر رہا ہے یا CPEC قرضوں کی ادائیگی دس کی بجائے بیس سالوں میں کرنے کی ہماری دردمندانہ درخواست قبول ہو گئی ہے۔ چین نے پاکستان سے کہا ہوتا کہ IMF جانے کے ضرورت نہیں، چین آپ کے ساتھ کھڑا ہے۔ چین نے تو ہمیں ٹھینگا دکھا دیا"۔
کامران خان نے بیرونِ ملک پڑھنے کے خواہش مند نوجوانوں کی بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان تمام باتوں کے باوجود ہم اس بلاک کا حصہ بن رہے ہیں تو کیا اب ہمارے بچے بچیاں جو کسی قابلِ ذکر چینی یا روسی یونیورسٹی کا نام بھی نہیں جانتے، اعلیٰ تعلیم کے لئے چین یا روس کی طرف سفر کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ اس بلاک میں قید ہونا پاکستان کے لئے سراسر نقصان دہ اور خطرناک سودا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو دونوں بڑے دھڑوں میں توازن رکھنا ہوگا اور یہ اکثر مشکل ہو سکتا ہے لیکن اس موقع پر روس کا دورہ کرنا شاید ایک ایسی غلطی تھی جس سے باآسانی بچا جا سکتا تھا۔ کئی دن سے روس اور یوکرین کے درمیان تناؤ کی کیفیت شدت اختیار کر رہی تھی اور جنگ کے بادل یورپ پر منڈلا رہے تھے۔ ایسے موقع پر بڑی آسانی سے کورونا کا بہانہ کیا جا سکتا تھا۔ کم از کم اس موقع پر کہ جب روس ایک ملک پر حملہ کرنے جا رہا تھا، یہ دورہ کرنا خطرناک تھا اور اس کے نتائج مستقبل میں پاکستان کو بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔