نجم سیٹھی نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کی تیاریاں ہو گئی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی ہر بات میں ساتھ دینا چھوڑ کر غیر جانبداری دکھائی ہے کیونکہ اپوزیشن کیساتھ یہی انڈرسٹینڈنگ تھی کہ آپ لوگ ہمیں اٹیک مت کریں۔ آپ نے جہاں فوکس کرنا ہے کریں۔ اس پر انھیں کہا گیا تھا کہ اچھا تو پھر نیوٹرل ہو کر دکھائیں۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نومبر 2021ء میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی کی تبدیلی کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی میں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس لئے عمران خان اور ان کے ساتھی پریشان ہو چکے ہیں۔ اب اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کیلئے تاریخ کا اعلان کرنے جا رہی ہے۔ وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔ اب معاملہ زیادہ سے زیادہ 10 دن میں ختم ہو جائے گا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد لانے میں اپوزیشن کو رکاوٹیں ضرور ہونگی۔ کیونکہ خان صاحب چپ کرکے نہیں بیٹھیں گے۔ وہ گرفتاریوں سمیت اپوزیشن کیخلاف ہر قسم کا حربہ استعمال کرنے کی بھرپور کوششیں کرینگے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کا حق بنتا ہے کہ وہ جن حلقوں سے جیتے، انھیں وہاں سے دوبارہ انتخابات لڑنے کا موقع دیا جائے۔ اب مسلم لیگ ن نے بالاخر اس کا حل نکال لیا ہے کہ وہ انھیں کہاں کہاں ایڈجسٹ کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا تھا کہ تحریک عدم اعتماد مشکل ہوا تو فارن فنڈنگ کیس کے ذریعے عمران خان کی چھٹی ہو جائے گی۔ مگر جب میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ اب کامیاب ہوجائے لیکن فارن فنڈنگ کیس کی تلوار پھر بھی عمران خان پر لٹکتی رہے گی۔
نجم سیٹھی نے چونکا دینے والا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ ایجنسیوں کے پاس عمران خان کے خلاف بہت زیادہ مواد موجود ہے۔ بس یہ سمجھ لیں کہ فائلوں کا انبار ہے۔ نواز شریف اور زرداری تو ماضی میں بھگت چکے، اب ان کے بھگتنے کا وقت آنے والا ہے۔ وہ فائلیں جو میڈیا کو اپوزیشن کیخلاف ملتی تھیں، وہی اب عمران خان کیخلاف ملیں گی۔
ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو سکتی ہے۔ تاہم اگر ایسا ہوا تو اپوزیشن سمجھے گی اسے اسٹیبلشمنٹ نے اسے فیل کروایا ہے۔ اس کے بعد لانگ ہوگا جس کی دھمکی دی گئی ہے۔
پشاور میں ہونے والی دہشتگردی کے افسوسناک واقعے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات مزید بڑھیں گے۔ دہشتگردی پاکستان میں دوبارہ واپس آ رہی ہے۔ یہ ہماری ناکامی ہے کہ ہم اپنے طالبان دوستوں کو سمجھا نہیں سکے کہ ان کے درمیان جو پاکستانی طالبان یا آئی ایس خراسان بیٹھے ہیں ان کے اوپر کچھ دبائو ڈالا جائے تاکہ وہ پاکستان کی طرف رخ نہ کریں۔ حکومت نے شروعات میں کوشش کی تھی لیکن طالبان کی جانب سے جواب دیا گیا تھا کہ ہم ان کے اوپر کسی قسم کا دبائو نہیں ڈال سکتے اور نہ ہی ایسا کرینگے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی طالبان کیساتھ مذاکرات ہوئے اور تقریباً ایک ماہ کیلئے سیز فائر بھی ہوا تھا لیکن اس کے بعد شدید حملے شروع ہو چکے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارے چینی دوست اور سرمایہ کار شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔ دلچسپ اور کمال کی بات یہ ہے کہ امریکا کے افغانستان سے جانے کے بعد پاکستان پر حملے بڑھ چکے ہیں۔
نجم سیٹھی نے کہا کہ طالبان کو ڈر ہے کہ اگر انہوں نے ان عناصر کو چھیڑنے کی کوشش کی تو وہ ان کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ دونوں کی آئیڈیالوجی ایک ہی ہے۔