میاں چنوں کا مشتاق مذہبی جنونیت کا شکار کیسے ہوا؟ ذمہ دار پولیس، معاشرہ یا ریاست؟

08:35 PM, 4 Mar, 2022

علی وارثی
پنجاب میں 2017 سے 2022 تک توہین مذہب کے 345 واقعات پیش آئے ہیں۔ آئی جی پنجاب راؤ سردار علی خان نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں مبینہ توہین مذہب کے واقعات میں اضافے دیکھا گیا ہے اور 2017 سے 2022 تک مبینہ توہین مذہب کے 345 واقعات پیش آئے۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ اس سال مبینہ توہین مذہب کے 14 جب کہ 2021 میں توہین مذہب کے 77 واقعات پیش آئے تھے۔

12 فروری کو پنجاب میں ایک مرتبہ پھر ایک ایسے ہی واقعے میں مشتاق نامی شخص کو ہجوم نے اس وقت قتل کر دیا جب انہوں نے ایک مقامی مسجد سے دھواں اٹھتے دیکھا اور وہاں پہنچنے پر مبینہ طور پر پایا کہ یہ شخص وہاں موجود مقدس کتب کو جلا رہا تھا۔ یہ واقعہ جنوبی پنجاب کے ضلع خانیوال میں پیش آیا۔ عینی شاہدین کے مطابق 17 والا موڑ نامی گاؤں کے باہر موجود مسجد سے مغرب کی نماز کے بعد نمازیوں کے نکل جانے کے بعد شور کی آوازیں آئیں۔ اردو نیوز کی ایک خبر کے مطابق ’یہ شخص صبح سے اس گاؤں میں موجود تھا اور بھیک مانگ رہا تھا۔ اس سے پہلے یہ کبھی ادھر نظر نہیں آیا تھا۔ شام کے بعد یہ شخص مسجد سے تھوڑی دور ایک دکان پر گیا اور وہاں کچھ دیر بیٹھا رہا اور اس نے دکان دار سے پوچھا کہ کیا اس کے پاس آگ کا انتظام ہے کیونکہ اسے سردی لگ رہی ہے۔ دکاندار نے اسے بتایا کہ وہ دکان بند کر کے جا رہا ہے اور آگ نہیں ہے۔ تو یہ شخص بھی وہاں سے نکل گیا۔ اس کے بعد اس کو مسجد کی طرف جاتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس کے مسجد کے اندر جانے کے کوئی دس منٹ بعد مسجد سے دھواں نکلتے دیکھا گیا۔ کچھ لوگ مسجد کے اندر گئے تو اس شخص کو مارتے ہوئے باہر لائے۔ اس کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد مسجد کے باہر اکٹھی ہو گئی اور اسی دوران پولیس کو بھی 15 پر اطلاع کر دی گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق ابتدائی طور پر صرف تین پولیس اہلکار تھانہ تلمبہ (قریب ترین قصبہ) سے پہنچے۔ بپھرا ہجوم دیکھ کر انہوں نے مزید نفری منگوائی۔ تھانہ صدر خانیوال کے ایس ایچ او اقبال شاہ بھی نفری کے ہمراہ وہاں پہنچے تو ہجوم نے ان پر بھی حملہ کر دیا۔

پولیس کے مطابق انہیں وائرلیس پر اطلاع ملی کہ ایک شخص کو لوگ مار رہے ہیں تو نفری وہاں پہنچی لیکن ہجوم بہت بڑا تھا اور نفری اس سے نمٹنے کے لئے ناکافی تھی۔ اس موقع پر قریبی تھانے سے مزید نفری منگوائی گئی لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہی ہجوم اس شخص کو ہلاک کر کے اس کی لاش درخت پر لٹکا چکا تھا۔

سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے ڈی پی او خانیوال نے کہا کہ میاں چنوں میں توہین مذہب کے نام پر قتل ہونے والا شخص ذہنی طور پر ٹھیک نہیں تھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تاحال کوئی گواہ سامنے نہیں آیا جو یہ حلفیہ کہہ سکے کہ انھوں نے قرآن کی بے حرمتی کی تھی۔

ڈی پی او خانیوال میں مزید کہا کہ امام مسجد نے اعلان کیا جس کے بعد لوگ اشتعال میں آ گئے اور انھوں نے تشدد کرکے ان کو ہلاک کیا۔

'مشتاق میرا بیٹا تھا، اس کے تین بچے تھے جن کا اب کوئی والی وارث نہیں'

دو روز بعد مشتاق کی والدہ کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آئی جس میں ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ مشتاق میرا بیٹا تھا، میں اس کی امی ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے بیٹے کی عمر 38 برس تھی اور ان کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا۔ انہوں نے بیٹے کے نسخے دکھاتے ہوئے بتایا کہ ہم ملتان سے اس کا علاج کراتے رہے ہیں۔ مشتاق کی والدہ کے مطابق انہیں سب نے کہا کہ اس کی شادی کر دو، ٹھیک ہو جائے گا۔ پھر اس کا بڑا بھائی ہمیں سب کو کراچی لے آیا۔ اس کے تین بچے تھے جن کا اب کوئی والی وارث نہیں۔ انہوں نے انصاف کی اپیل کی اور کہا کہ میرا بچہ بے گناہ مارا گیا۔ صرف ملنے کے لئے گیا تھا کراچی میرے پاس سے۔

https://twitter.com/Xadeejournalist/status/1493218097418801157

اس خاندان کے قریبی محلے داروں سے بات کرنے پر پتہ چلا کہ مشتاق فٹبال کے کھلاڑی تھے اور یہی کھیل کھیلتے ہوئے چند سال قبل ان کے سر میں چوٹ لگی تھی جس کے بعد انہوں نے اپنا ذہنی توازن کھو دیا۔ مشتاق کئی سال ملتان میں ایک ڈاکٹر کے پاس زیرِ علاج رہے جس کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسی ذہنی کیفیت میں ہین کہ یہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ سکتے ہیں اور ان کو بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ کس بات کا کیا مطلب لیا جا سکتا ہے۔ کچھ عرصے بعد مشتاق کی اہلیہ نے بھی انہیں چھوڑ دیا اور ان کے بھائی انہیں اور والدہ کو لے کر کراچی چلے گئے تھے۔ 12 فروری کا اندوہناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب یہ اپنی بہن سے ملنے کے لئے میاں چنوں آئے تھے۔

ذہنی معذور شخص کو قتل کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں

پاکستان میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ کسی ذہنی معذور شخص کو توہینِ مذہب کا الزام لگا کر یوں ہجوم نے قتل کیا ہو۔ جولائی 2020 میں پشاور میں ایک شخص کو عدالت کے احاطے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ شخص بھی ماضی میں دعویٰ کر چکا تھا کہ یہ نبی ہے اور لوگ اس کے پیچھے چلیں۔ نومبر 2021 میں چارسدہ میں ایک شخص پر قرآن کی بے حرمتی کا الزام لگا۔ پولیس نے اس کو گرفتار کر لیا لیکن ہجوم نے پولیس سٹیشن کے باہر جمع ہو کر اس کی حوالگی کا مطالبہ شروع کر دیا اور پولیس کی جانب سے انکار پر پولیس سٹیشن کو ہی آگ لگا دی تھی۔ 2017 میں مشعل خان کے مردان کی ایک یونیورسٹی میں خوفناک حالات میں قتل کیے جانے کے چند ہی روز بعد چترال میں ایک شخص پر توہینِ مذہب کا ہی الزام لگا تھا اور ہجوم اس کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ یہ واقعہ ایک مسجد کے اندر پیش آیا تھا اور ہجوم نے کئی گھنٹے تک مسجد کا گھیراؤ جاری رکھا تھا۔ اس شخص کو بچانے کی کوشش میں چھ پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے تھے اور ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کی شیلنگ کا سہارا لیا تھا گیا۔ پولیس کے مطابق یہ شخص بھی ذہنی طور پر متوازن نہیں تھا اور یہ بات ہجوم کو بھی بتائی گئی کہ اس کا میڈیکل ٹیسٹ کروایا جائے گا اور اگر اس کی دماغی حالت درست ثابت ہوئی تو اس کے خلاف توہینِ مذہب کے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی پرائے انسانی حقوق میں آئی جی پنجاب نے یہ بھی کہا کہ نوجوانوں کا مائنڈ سیٹ مکمل تبدیل ہو چکا ہے اور نوجوانوں کے ذہن پر سوشل میڈیا کا کافی حد تک اثرا ہوا ہے جن کی وجہ سے یہ واقعات پیش آ رہے ہیں۔ لیکن یہ بات وہ توہینِ مذہب کے ملزمان کی بابت کہہ رہے تھے، انہیں قتل کرنے والوں کے بارے میں نہیں۔ اسلام آباد میں موجود Centre for Research and Security Studies کے مطابق پاکستان بننے کے بعد سے اب تک 89 افراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے 38 واقعات 2012 کے بعد پیش آئے ہیں۔ یعنی پچھلے دس سال میں چار ایسے واقعات سالانہ ملک میں پیش آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ قتل کرنے میں ناکامی کے واقعات اس کے علاوہ ہیں۔ اگر انہیں بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد مزید تشویشناک ہو جاتی ہے۔

یہ واقعات اتنے تواتر سے کیوں پیش آ رہے ہیں اور ان کی روک تھام کا طریقہ کیا ہے؟

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں بات کرتے ہوئے آئی جی پنجاب نے کہا کہ جس طرح سماج میں انتہا پسندی ہے اور لوگوں کو سرعام توہین مذہب کے نام پر قتل کیا جا رہا ہے تو اس حوالے سے پولیس اہلکار بھی کشمکش کا شکار ہوتے ہیں کہ وہ اس طرح کے واقعات سے کس طرح نمٹیں۔

آئی جی پنجاب نے مزید کہا کہ جب تک ملکی سطح پر کوئی پالیسی نہیں بنتی تب تک ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ واقعات رک جائیں گے۔ پولیس کے پاس تمام وسائل موجود ہیں لیکن سوسائٹی میں اس نکتے پر جو سوچ ہے اس کو جب تک نہیں بدلا جائے گا تب تک پولیس موثر کارروائی نہیں کر سکتی۔ ایک شخص نے سرعام قتل کیا اور ان کے نام پر بڑے بڑے عرس ہو رہے ہیں، لوگوں کے درمیان ان کے حوالے سے ایک عقیدت بھی ہے تو پھر پولیس کیسے موثر کارروائی کرے؟

معاشرے میں توہینِ مذہب کے حوالے سے عوام کے جذبات

جس تواتر سے توہینِ مذہب کے نام پر قتل کے واقعات پچھلے دس سال میں منظرِ عام پر آئے ہیں، پولیس کے لئے تقریباً ہر بار ہی اسے کنٹرول کرنا مشکل تھا۔ آن کی آن میں ایک جگہ پر ہزاروں لوگوں کا اکٹھا ہو جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشرے کے کئی طبقات میں ان معاملات میں تشدد مذہبی طور پر بھی جائز ہے اور اس مسئلے کو محض law and order کے مسئلے کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ اس میں دیگر کئی عوامل ہیں جو معاملے کو اس نہج پر لے کر آتے ہیں۔ سب سے پہلے تو نظامِ تعلیم اور نصاب کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

میاں چنوں کے افسوسناک واقعے کے بعد وزیر اطلاعات فواد چودھری نے نظامِ تعلیم اور انتہا پسندی کا ذکر کیا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان ہی کی حکومت نے تعلیمی نصاب میں ایسی تبدیلیاں کی ہیں جن سے معاملات مزید بگڑنے کا امکان ہے۔

https://twitter.com/fawadchaudhry/status/1492738786425700353

گذشتہ کئی دہائیوں سے ماہرینِ تعلیم ڈاکٹر عبدالحمید نئیر، ڈاکٹر پرویز ہودبھائی وغیرہ یہ کہتے آئے ہیں کہ ہماری درسی کتب میں تشدد کا عنصر بہت غالب ہے۔ میٹرک کی درسی کتب میں قرآن کی ایسی سورتوں کا چناؤ کیا گیا ہے جو جنگ کے دور کی صورتحال پر ہدایات فراہم کرتی ہیں۔ نماز کے طریقے کو لے کر دہائیوں سے فرقہ واریت کو ہوا دینے کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔ حال ہی میں نادذ کیے گئے یکساں قومی نصاب پر بھی اعتراضات موجود ہیں۔ ڈاکٹر نئیر کے مطابق اس نصاب کے تحت پہلی سے پانچویں جماعت کے طلبہ کو جو اسلامیات کے اسباق پڑھائے جا رہے ہیں وہ ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ثقیل ہیں۔ "اگر اس کا مدرسوں میں پڑھائی جانے والی اسلامیات کے نصاب سے تقابل کیا جائے تو سامنے آئے گا کہ سرکاری و غیر سرکاری سکولوں کے طلبہ کی اسلامیات مدرسوں میں پڑھائی جانے والی اسلامیات سے زیادہ مشکل ہے"۔

یکساں قومی نصاب ہی کے تحت ہر پرائمری سکول کے لئے لازمی ہے کہ وہ ایک مدرسے سے سرٹیفائیڈ قاری کو ناظرہ پڑھانے کے لئے رکھے گا۔ یعنی مدارس کے علما کے لئے مزید کھپت پیدا کی گئی ہے۔ وفاق المدارس کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 35 لاکھ طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہاں وہ قرآن، حدیث، تفسیر، علم الکلام و دیگر علوم پڑھتے ہیں اور یہ اتنے مفصل علوم ہیں کہ ان پر مکمل توجہ دیے بغیر ایک شخص عالمِ دین نہیں بن سکتا۔ یعنی یہ طلبہ دیگر مضامین پر چاہیں بھی تو توجہ نہیں دے سکتے اور پھر ان کے لئے ملازمتوں کا بھی بندوبست ریاست کی طرف سے کیا جا رہا ہے تو انہیں مدارس کے کورس پڑھ کر ہی فائدہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ یعنی مدارس میں ریاضی، انگریزی اور سائنسی مضامین پڑھائے جانے کی رعایت کے عوض بڑی تعداد میں مزید علمائے دین کے لئے ایک پوری انڈسٹری بنائی جا رہی ہے۔

پولیس اہلکاروں کی ذہنی کشمکش؟

دوسرا مسئلہ جس کی طرف آئی جی پنجاب نے نشاندہی کی وہ پولیس کی اپنی کشمکش ہے کیونکہ جس شخص کو قتل کیا جا رہا ہوتا ہے اس پر الزام توہینِ مذہب کا ہوتا ہے۔ ایسے میں پولیس اہلکار خود بھی فیصلہ کرنے میں الجھنا کا شکار ہوتے ہیں کہ وہ ملزم کو بچانے کی کوشش کریں یا اس کے قتل میں ساتھ دیں۔ گویا دوسرے الفاظ میں انہیں بھی اپنے ایمان کی فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ اگر توہینِ مذہب کے مرتکب شخص کو بچایا تو کہیں یہ بھی دائرۂ اسلام سے خارج نہ ہو جائیں۔

بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ پولیس کی تربیت پر نظرِ ثانی ہونی چاہیے اور ان کے نصاب کا مکمل طور پر از سرِ نو جائزہ لیا جانا چاہیے۔ انہیں یہ ذہن نشین کروایا جانا چاہیے کہ ان کے لئے سب سے افضل ان کا اپنا فرض ہے جو کہ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ہے اور کوئی بھی شخص جس پر توہین کا ہی کیوں نہ ہو جب تک الزام ثابت نہیں ہو جاتا وہ مجرم نہیں قرار پاتا۔ ان کا واحد مطمع نظر ملزم کی حفاظت اور اس کا عدالت کے سامنے پیش کیا جانا ہونا چاہیے۔

یاد رہے کہ پنجاب پولیس کی جانب سے احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کے متعدد واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ نومبر 2014 میں ایک اے ایس آئی نے ضلع گجرات میں ایک توہینِ مذہب کے ملزم کو تھانے کی حدود میں کلہاڑی سے قتل کر دیا تھا اور یہ واضح نہیں کہ اس پر پولیس نے کیا کارروائی کی۔ اور اسی طرح یہ بھی واضح نہیں کہ جنوری 2011 میں سلمان تاثیر کے قتل کے بعد ایلیٹ فورس کے وہ نوجوان جو ممتاز قادری کے ساتھ تھے اور اس کے منصوبے سے بخوبی آگاہ تھے، ان کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی یا نہیں۔

کیا انٹرنیٹ مسائل پیدا کر رہا ہے؟

آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کا مائنڈ سیٹ مکمل تبدیل ہو چکا ہے اور سوشل میڈیا کے منفی اثرات کی وجہ سے ایسے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ پاکستان میں ریاست کا بیانیہ پہلے دن سے ہی مذہب کے سیاسی استعمال کو ہوا دیتا رہا ہے۔

مثلاً موجودہ حکمران جماعت نے اقتدار میں آنے سے پہلے توہینِ مذہب اور ختمِ نبوتﷺ کا کارڈ اپنے سیاسی مقاصد کے لئے کھیلا اور ملک کے وزیر اعظم اپنے کسی خطاب میں 'ریاستِ مدینہ' کا ذکر کرتے ہیں۔ خواہ اس کی تشریح ان کے اپنے دماغ میں کچھ بھی رہی ہو، عام ووٹر کے لئے اس کی اپنی تشریح ہوتی ہے۔

2014 میں سانحۂ APS پشاور میں 140 بچوں کی ہلاکت کے بعد بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان کی شق نمبر 5 کے مطابق ایسے ادب، اخبارات اور رسالوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جانا تھا جو نفرت، انتہا پسندی، فرقہ واریت اور عدم برداشت کو ہوا دیتے ہیں۔

اسی پلان کی شق نمبر 11 کے مطابق دہشتگردوں اور دہشتگرد جماعتوں کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں تشہیر و توصیف پر پابندی لگائے جانا تھی۔ لیکن آج 8 سال کے بعد اس پلان کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔ ملک کے وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر اسامہ بن لادن کو شہید کہا اور ملک کے وزیرِ خارجہ نے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بیان سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔

اس پلان کی شق نمبر 13 کہتی تھی کہ دہشتگردوں کا مواصلاتی نیٹ ورک مکمل طور پر تباہ کر دیا جائے گا۔ لیکن یہ نیٹ ورکس آج بھی فعال ہیں اور 2020 میں کراچی میں شیعہ مخالف ریلی اس کا واضح ثبوت ہے کہ یہ گروپس ناصرف موجود ہیں، ان کا پیغامات کی رسد کا نظام مکمل طور پر فعال ہے اور یہ سیاسی سرگرمیوں کے لئے آزاد ہیں۔

ایف آئی اے سوشل میڈیا پر دہشتگردی کو روکنے کے لئے ایک سائبر کرائم ونگ رکھتی ہے، اس کے لئے PECA کا متنازع قانون بھی موجود ہے۔ لیکن FIA ہر بار گرفتار اسی شخص کو کرتی ہے جس پر توہینِ مذہب کا الزام لگا ہوتا ہے۔ لاہور میں پیش آنے والے ساجد اور پطرس مسیح کا کیس مدِ نظر رکھا جائے تو سامنے آتا ہے کہ یہ ادارہ بھی دورانِ تفتیش مذہبی بنیادوں پر ملزمان سے امتیاز برتتا ہے۔ یہ صحافیوں، سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور انسانی حقوق کے کارکنان کو گرفتار کرنے میں تو تامل نہیں برتتا لیکن جس مقصد کے لئے اس کو PECA کے تحت لامحدود اختیارات دیے گئے ہیں، اس میں اس کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

آئی جی پنجاب سوشل میڈیا پر لوگوں کے بدلتے ذہنوں کے حوالے سے اپنا مؤقف رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے منفی اثرات پر اس وقت ایک عالمی بحث جاری ہے۔ دنیا کا ہر چھوٹا بڑا ملک اس سلسلے میں قانون سازی بھی کر رہا ہے۔ اکیسویں صدی میں سوشل میڈیا کو مکمل طور پر بند کرنا ناممکن ہے۔ لہٰذا ریاست کی توجہ تشدد، لاقانونیت اور جرائم کی روک تھام پر ہونی چاہیے، نہ کہ سوشل میڈیا کی بندش پر۔

میاں چنوں میں توہینِ مذہب کے نام پر قتل ہونے والے مشتاق کے لئے میڈیا کی بھی وہ ہمدردیاں نظر نہیں آئیں جو سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کے سیالکوٹ میں قتل پر دیکھنے میں آئی تھیں۔ اس امر سے یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ پریانتھا کمارا کے قتل کے بعد ریاست کی کارروائیاں عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو بچانے کے لئے کی گئی تھیں اور کسی بڑی پالیسی کی تبدیلی کا پیش خیمہ نہ تھیں۔

پاکستانی میڈیا کو چاہیے کہ وہ میاں چنوں جیسے اندوہناک واقعات کے بعد قومی اور معاشرتی سطح پر توہینِ مذہب کے قوانین، محرکات، اس پر عوامی ردِ عمل، پولیس کے کردار اور ریاستی پالیسی پر ایک تحقیق کرے اور ٹیلی وژن چینلز اشرافیہ کی سیاسی چالوں کی بجائے معاشرے میں بڑھتے ہوئے تشدد کے رجحانات پر قومی بحث کا بندوبست کرے۔ وگرنہ محض پولیس کے ذریعے ایسے واقعات کی روک تھام ممکن نہ ہوگی۔
مزیدخبریں