پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اکوڑہ خٹک میں ایک مدرسے پر دہشت گردوں کے حملے میں مولانا حامد الحق اور دیگر 6 افراد جاں بحق ہو گئے ۔ مولانا نے جمعیت علمائے اسلام (س) کی باگ ڈور اپنے والد مولانا سمیع الحق سے لی تھی جو 2018 میں دہشتگردی کی نذر ہوئے تھے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ اسی طرح افغانستان میں طالبان کے مختلف گروہوں کے درمیان جھڑپوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
اسے اس تمام انسانی المیے کی کوئی پرواہ بھی نہیں ہے۔ امریکہ نے نہ صرف افغانستان میں چھوڑے گئے اربوں ڈالر مالیت کے فوجی سازوسامان کی بازیابی کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا ہے بلکہ بگرام میں دو بارہ فوجی اڈے بنانے کے عزم کا بھی بار ہا اعادہ کیا ہے۔
آئیں اس مسئلے کو سفارتی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں
صدر ٹرمپ نے 20 جنوری کو دوسری بار امریکہ کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے کئی سفارتی تقرریاں کی ہیں۔یہاں تک کہ انہوں نے میری نسل کے ہالی ووڈ ہیروز جیسے سلویسٹر اسٹالون، میل گبسن اور جون ووئٹ کو ہالی ووڈ کا سفیر مقرر کیا ہے۔گو سافٹ پاور کا دور ختم ہو رہا ہے لیکن امریکہ عالمی سفارتکاری کا غیر متنازع چیمپین ہونے کے ناطے سفیروں کی یہ نئی قسم تخلیق کر سکتا ہے۔
غیر متنازعہ کیوں؟
سفارت کاری کا موضوع انسانی تاریخ میں جتنا گہرا ہے پاکستان میں اس پر اتنا ہی کم لٹریچر دستیاب ہے۔رابرٹ ہچنگز اور جیریمی سوری نے ”عملی طور پر جدید سفارت کاری“ کے عنوان سے ایک کتاب کی تدوین کی ہے۔
خان نے اوول آفس میں آتش دان کے سامنے ٹرمپ کے ساتھ بیٹھ کر بڑی مسکراہٹیں شیئر کیں۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی گزشتہ ہفتے ٹرمپ کے ساتھ اسی مقام پر بیٹھے تھے جہاں عمران خان 2019 میں بیٹھے تھے۔ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ جنگ اور افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے سوال پر خان پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ اسی طرح ، وہ روس کے ساتھ جنگ کے سوال پر زیلنسکی پر سخت تھا۔
خان نے ٹرمپ کے سخت مؤقف پر مسکرا کے کنارا کشی اختیار کی جو ایک مضبوط اعصاب کے آدمی کا کام تھا۔ اور زیلنسکی نے سفارتی کمزوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے جذبات پہ قابو کھو دیا۔ نتیجتاً وہ اس اندھی گلی میں چلے گئے جہاں ٹرمپ انہیں لے جانا چاہتے تھے۔زیلنسکی کے معاملے پر اتنا کچھ کہا جا چکا ہے کہ اب یہ غور کرنے کے لائق نہیں ہے۔ہم عمران خان اور ٹرمپ کے معاملے کو سفارتکاری کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں کیونکہ اس کا طویل عرصے سے مطالعہ نہیں کیا گیا ۔
ٹرمپ کی خان کے ساتھ شیئر کی جانے والی تمام مسکراہٹیں اور خان کے سوشل میڈیا جنگجوؤں نے ان مسکراہٹوں اور خان کے انداز سے جو مقبولیت حاصل کی وہ سب اپنی جگہ، لیکن ٹرمپ نے اس وقت تک اسلام آباد میں سفیر مقرر نہیں کیا جب تک وہ اپنے عہدے پر فائز رہے۔ بلکہ اگر میری یادداشت درست ثابت ہوئی تو انہوں نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت بھی محدود کر دی تھی۔سفیر کا تقرر دو ممالک کے درمیان تعلقات کی بنیادی علامت ہے۔
مزید برآں ٹرمپ 2020 میں بھارت جاتے ہوئے پاکستان میں چند لمحوں کے لیے بھی وزیر اعظم آفس یا بنی گالہ نہیں گئے ۔ بھارت میں انہوں نے بھارتی رقاصوں کے ساتھ رقص کیا اور تاج محل میں مودی کیساتھ تصویریں بنوائیں اور محبت بھرے پیغامات لکھے ۔بہرحال پاکستان میں سفیر متعین نہ کرنا یہ نہ صرف پاکستان بلکہ یورپ اور مشرق وسطیٰ کے لیے بھی تباہ کن تھا۔
پاکستانی مصنفین اور رائے ساز مشرق وسطیٰ پر انگلیاں اٹھا رہے تھے جس کی وجہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا رہا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں جاری تشدد اور جنگ و جدل پاکستان میں بھی پھیل رہا ہے۔
یہ بیانیہ ہمیشہ ہی مقبول رہا ہے کیونکہ دہشت گردوں کے مختلف گروہوں کو مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک کے ساتھ وفاداری کا مظاہرہ کرنیوالا سمجھا جاتا ہے۔
اس تمام افراتفری اور خونریزی میں امریکی سفارت خانے میں موجود کسی شخص نے ممکنہ طور پر اسلاموفوبیا پر امریکی اور یورپی میڈیا کے مواد کو دوزخ کے دروازے کی طرح اسلام آباد میں کھول دیا۔
چن چن کر یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت کے بارے میں خبریں اور تبصرے مغربی ذرائع ابلاغ سے اٹھا کر اسلام آباد میں اکٹھے کئے گئے۔ اس کے بعد اسے تحریری اور بصری مواد میں تبدیل کیا گیا تاکہ اسے پاکستانی اور بین الاقوامی سامعین کے سامنے پیش کیا جاسکے۔
اس کے بعد یہ نفرت انگیز مواد دنیا بھر میں تقسیم کیا گیا۔ اس نے پاکستان میں امریکہ اور یورپ کے خلاف نفرت کو ہوا دی اور مذہبی جذبات کو ابھارا ۔ جب رائے عامہ بنانے والے مشرق وسطیٰ میں نقائص تلاش کر رہے تھے، نفرت پھیلانے والوں کی ایک چھوٹی لیکن بہت طاقتور فوج ہمارے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔
امریکہ اور یورپ خود تو یہ طے نہیں کرتے ان کے ملک اور معاشرے میں کون داخل ہو اور کون ان کے نظام کے مطابق ان کیلئے بہتر ہے، اس لیے اس طرح کے نفرت پھیلانے والے مغربی یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینکس تک پہنچ جاتے ہیں۔ پھر ہم جے ڈی وینس اور ایلن مسک جیسے لوگوں سے الزامات سنتے ہیں کہ یہ ہمیشہ ایک غیر ملکی طالب علم یا پناہ گزین ہے جو ان کے دارالحکومتوں میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔میں نے ان کے منہ سے غیر ملکیوں پر دہشت گردی اور تشدد کا الزام لگاتے ہوئے خود احتسابی کا ایک لفظ بھی نہیں سنا۔
بلوم کی تقرری کے بعد امریکی سفارت خانے سے نفرت انگیز مواد کی تقسیم روک دی گئی تھی ، لیکن اس بات کا امکان یا کوئی اطلاع نہیں ہے کہ اس میں ملوث عہدیداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا تھا۔
اس طرح کی نفرت انگیز صنعت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے رحمت العالمین و خاتم النبیین اتھارٹی تشکیل دی تاکہ اسلاموفوبیا اور دیگر متعلقہ موضوعات پر تمام حقیقی تحقیق اور وکالت کے کام کی منطقی نگرانی کی جاسکے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ سفیر کی غیر موجودگی میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے فراہم کردہ مواد سے نفرت پھیلانے والوں کا کور گروپ اب بھی کام کر رہا ہے اور امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک کسی نہ کسی طرح اس کی مدد کر رہے ہیں۔سفیر کی تقرری ہر مرض کا علاج نہیں ہے ۔ ماضی میں امریکی سفیروں کو آج کے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ خوشگوار ملاقاتوں کے لئے بھی جانا جاتا تھا۔
انتخابی مہم کے دوران اور اس کے بعد، ٹرمپ اس بات کو اجاگر کرتے رہے ہیں کہ امریکہ میں موجود غیر ملکی لوگ کتنے پرتشدد ہیں۔ اگر کوئی سفیر دفتر میں ہو تو ہم کم از کم یہ تو جان سکتے ہیں کہ دہشت گردی کے حوالے سے امریکہ کی ریاستی پالیسی اس خطے میں کیا ہے۔جب یہ پالیسی واضح ہو تو ہمارے مبصرین اور عوامی راہنما پاکستان میں جاری دہشت گردی کو بغیر تحقیق کے خلیجی ممالک کیساتھ مربوط نہیں کریں گے۔ کم از کم اتنا تو ہو گا کہ عوام کو پتہ ہو گا کہ ان کا قاتل کون ہے۔