یادش بخیر، احمد رشدی

07:11 AM, 4 May, 2018

علی وارثی

ادارتی نوٹ: احمد رشدی کے لئے یہ تحریر علی وارثی نے ان کی برسی یعنی 24 اپریل کے لئے لکھی تھی۔ مگر ویب سائیٹ بند ہونے کے باعث وقت پر چھاپی نہ جا سکی۔ ویب سائیٹ کی واپسی کے بعد آج قارئین کی دلچسپی کے لئے واجبی رد و بدل کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے۔


ایسا نہیں کہ ڈھونڈیں تو ملیں گے نہیں۔ ڈھونڈے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے۔ مگر آج کی نسل واقعتاً احمد رشدی کو اس طرح نہیں جانتی جیسے عظیم بھارتی گلوکاروں محمد رفیع اور کشور کمار کا نام زبان زدِ عام ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اس میں میڈیا کا قصور ہے جو پاکستانی فلم انڈسٹری کے سنہرے دور کو اس طرح ترویج نہیں دیتا جیسے بھارت میں ستر اور اسی کے دہائی کی موسیقی کو دی جاتی ہے۔ مگر اب انہیں کون سمجھائے کہ بھائی اگر راجیش کھنا، امیتابھ بچن، انیل کپور، شاہ رخ خان اور آج کے نوجوان ہیروز نہ ہوتے تو دلیپ کمار بھی ایک ماضی کی حسین یاد سے بڑھ کر کچھ نہ ہوتے، اور یادیں بھی ہمارے بزرگوں کی، ہماری اپنی نہیں۔


پاکستان میں جنرل ضیاءالحق کے دورِ حکومت نے جہاں باقی سارے معاشرے کو نقصان پہنچایا، وہیں فنونِ لطیفہ پر بھی یہ انتہائی کٹھن وقت تھا۔ یہاں کلاکار کو کبھی عزت پہلے بھی نہیں دی جاتی تھی مگر ضیاء مرحوم کے دور میں تو ایسا شدت پسند اسلام ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی کہ کم از کم فلم تو مڈل کلاس کے لئے شجرِ ممنوعہ بن کر رہ گئی۔ نتیجتاً ایک لڑی جو نسل در نسل آگے منتقل ہوتے ہوتے ہی ایک قابلِ رشک روایت بن سکتی تھی وہ پنپ ہی نہ سکی۔ آج عالم یہ ہے کہ چھوٹا بھائی اریجیت سنگھ کو سننا چاہتا ہے۔ ہم اسے علی عظمت کی عظمت کا یقین دلانے کی جد و جہد میں مگن ہیں جبکہ والد صاحب احمد رشدی کو یاد کر کر کے آہیں بھرتے اور ہم دونوں کی باتوں پر کُڑھا کرتے ہیں۔ مگر یقین جانیں ایک بار آپ مہدی حسن، میڈم نور جہاں، احمد رشدی، اخلاق احمد، عنایت حسین بھٹی، اے نئیر، مسعود رانا کے فن سے واقف ہو جائیں تو کوئی بدنصیب ہی ہوگا جو ان کی قدر نہ کر پائے۔


گذشتہ ماہ احمد رشدی کی برسی بھی گزری اور ان کا جنم دن بھی۔ رشدی پاکستان ہی کے نہیں برصغیر بھر کے پہلے پاپ سنگر گردانے جاتے ہیں جنہوں نے 'ارمان' کا گانا 'کو کو کورینا' گا کر برصغیر میں موسیقی کی اس طرز کو متعارف کروایا۔ آج بچاس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی یہ گانا شادی بیاہوں پر حیران کن طور پر بچے بوڑھے یک زبان ہو کر نہ صرف گاتے ہیں بلکہ وحید مراد کے انداز میں تالی بھی ایک تال پر بجتی ہے۔



'چکوری' کو عمومی طور پر سپر سٹار ندیم بیگ کی پہلی فلم کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ ندیم اداکار بننے نہیں، گلوکار بننے کے لئے انڈسٹری میں آئے تھے۔ کیپٹن احتشام کے پیچھے پڑ کر فلم میں ایک گانا اپنے لئے رکھوایا۔ خدا لیکن کچھ اور سوچے بیٹھا تھا۔ قسمت دیکھیے کہ ہدایتکار صاحب اور ہیرو کی کسی بات پر ان بن ہو گئی اور ہیرو کو فلم سے کاٹ کر ندیم کو ہیرو لے لیا گیا۔ گانا ندیم صاحب کی آواز میں بھی فلم میں موجود ہے مگر معروف احمد رشدی کی ہی آواز میں ہے۔ اس گانے اور فلم نے پاکستان فلم انڈسٹری کو اس کے کامیاب ترین ہیروز میں سے ایک کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔



احمد رشدی کی آواز گو وحید مراد کی اداکاری پر سب سے خوبصورت بیٹھتی تھی کہ وحید جیسا چلبلا تھا، رشدی کی آواز ویسی ہی شوخ، مگر ایسا ممکن نہیں کہ محمد علی اداکاری کی کسی بھی صنف کے ساتھ انصاف نہ کر پائے ہوں۔ شمیم آراء کے ساتھ ان کی فلم ‘صائقہ‘ کا گانا ‘اے بہارو گواہ رہنا‘ آج بھی کسی نوجوان جوڑے کے جذبات، عہد و پیمان اور ہمیشہ ساتھ رہنے کی حسرت کا بہترین ترجمان ہے۔



جہاں ہندوستان میں گانا پکچرائز کروانے کے حوالے سے دلیپ کمار کا کوئی ثانی نہیں، دیو آنند جیسا منفرد انداز کسی کا نہیں، وہیں وحید مراد پاکستانی سنیما پر اس فن کا بادشاہ ہے۔ آج بھی شاید ہی کوئی اداکار ہو جو وحید کے انداز کو کاپی کرنے کی کوشش نہ کرتا ہو۔ یقین نہیں آتا تو کبھی فواد خان کا نظریں اٹھا کر ہیروئن کی طرف پیار سے دیکھنا دیکھیے۔ اسی ضمن میں ارمان ہی کا ایک اور لازوال گانا ‘اکیلے نہ جانا‘ اگر آپ کی نظروں سے نہیں گزرا تو یہ بھی تقریباً لاہور نہ دیکھنے والی ہی بات ہے۔



اور پھر ‘دل میرا دھڑکن تیری‘ میں اچھلتا، کودتا، شمیم آراء کو تنگ کرتا وحید آج بھی حسیناؤں کے خوابوں کا شہزادہ دکھتا ہے۔ آپ اس کی ڈریسنگ سینس اور دل موہ لینے والے انداز میں کھو کر نہ رہ جائیں اس واسطے احمد رشدی نے اس کو گایا بھی ایسے ہی ہے کہ وحید سارا کریڈٹ اکیلا نہ لے جا سکے۔



ویسے آپ نے کبھی عدالتوں میں کھڑے ہو کر جج کے فیصلوں کو لتاڑتے محمد علی صاحب کو قوال کے روپ میں متصور کیا ہے؟ لیجیے، جج صاحب علی بھائی کو ان کے بارہ سال واپس کیے دیتے ہیں۔



لیکن اسی فلم ' جیسے جانتے نہیں' کے ایک اور گانے ' ایسے بھی ہیں مہرباں' گا کر احمد رشدی نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ صرف شوخ و چنچل گانوں کے ہی بے تاج بادشاہ نہیں، ‘سنجیدہ‘ موسیقی میں بھی ان کو مات دینے والا کسی اور ہی سیارے پر ہو تو ہو۔



اور پھر ' نصیب اپنا اپنا'۔ اس پر کیا لکھیں؟ بس جی چاہتا ہے گانا ختم نہ ہو۔ احمد رشدی یونہی گاتا رہے، وحید ایسے ہی شبنم کو دیکھتا رہے اور ابرِ کرم اتنا برسے، اتنا برسے کہ وہ جا نہ سکیں۔



خیر اب آٹھ دس گانوں میں کیا احمد رشدی کو خراجِ تحسین پیش ہوگا۔ یہ تو ہماری سعادت ہے کہ احمد رشدی ہم سے پہلے ہو گزرے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ تشنگی سی رہ گئی۔ ابھی عمر ہی کیا تھی؟ اس عمر تک تو آج کل کے گلوکار راگ پکے کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ خیر، آسمانوں پر کوئی ضرورت آن پڑی ہوگی۔ ہمارے لئے یہی بہت ہے کہ حیدر آباد دکن سے ہجرت کر کے آنے والا یہ عظیم گلوکار اس ملک کے ریڈیو، ٹیلی وژن، سٹیج اور فلموں کی زینت بنا۔ احمد رشدی جیسے گلوکار پاکستان کے ماتھے کا جھومر، اس کے گلے کا ہار ہیں۔ ان کا احترام ایوارڈز اور انعامات میں نہیں ماپا جا سکتا۔ ان کی انہیں کیا حاجت؟ یہ لوگ تو ہمارے لئے ہیں۔ بس انہیں سنیے۔ اور ایسے کسی شخص کی باتوں میں مت آئیے جو موسیقی سے بلاوجہ کا بیر پالے بیٹھا ہو۔ ایسے لوگ ہم سے ناراض ہی بھلے۔ ان کے سامنے بلکہ وحید مراد کے انداز میں گائیے'کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے'۔


مزیدخبریں