نیا نوول کرونا وائرس خاص طور سے کن لوگوں کے لیے خطرہ ہے؟ کون کون سی بیماریوں میں پہلے سے مبتلا مريضوں کو زیادہ خطرات لاحق ہیں؟ اس رپورٹ میں ان تمام سوالوں کا جواب دیا گیا ہے۔ ان سولات کی روشنی ميں رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ کے پوسٹ مارٹمز پر مشتمل انکشافات خوفناک ہیں۔
برلن میں قائم رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ کی ویب سائٹ پر اپریل کے آغاز میں کرونا وائرس کے مردہ مریضوں کے داخلی جسمانی معائنے یعنی پوسٹ مارٹمز اور ایئروسول پیدا کرنے والے اقدامات سے گریز کرنے کے نظریے کی وکالت کی گئی تھی تاہم متعدی بیماریوں کے ليے ذمہ دار وفاقی ایجنسی نے بعد میں اپنا خیال بدل لیا۔ انسٹی ٹیوٹ کے نائب صدر، لارس شاڈے نے زور دے کر کہا کہ پوسٹ مارٹم درست عمل ہے، خاص طور پر اگر یہ بیماری نئی ہے تو اس کا شکار ہو کر مرنے والوں کا زیادہ سے زیادہ پوسٹ مارٹم کرنا چاہيے لیکن مناسب احتیاطی تدابیر کے ساتھ۔
پیتھالوجسٹ کلاؤس پوشل کے مطابق 22 مارچ سے 11 اپریل تک انہوں نے کرونا وائرس سے مرنے والے 65 مریضوں کا پوسٹ مارٹم کیا۔ ان میں سے 46 کو پہلے ہی سے پھیپھڑوں کی بیماریاں تھیں، 28 مُردوں کو داخلی ٹرانسپلانٹڈ اعضا کی بیماریاں تھیں۔ 10 کینسر، ذیابیطس یا موٹاپے سے جڑے امراض کے تھے اور 16 ڈیمینشیا میں مبتلا تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں سے کچھ کو یہ بیماریاں تھیں۔
کلاؤس پوشل کے ڈیٹا بیس میں اب 100 سے زیادہ پوسٹ مارٹمز کے بارے میں معلومات موجود ہیں۔ وہ سبھی تصدیق کرتے ہیں کہ مرنے والوں میں سے کوئی بھی خصوصی طور پر کرونا وائرس سے نہیں مرا لیکن سب کو دل کی تکلیف، ہائی بلڈ پریشر، آرٹیروسکلروسیس، ذیابیطس، کینسر، پھیپھڑوں یا گردے کی خرابی یا جگر فعال نہ رہنے کے سبب موت کے منہ ميں جانا پڑا۔
پوشل کا کہنا ہے کہ ان نتائج کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کرونا وائرس کو سنجیدہ نہ لیا جائے۔ لیکن یہ واضح رہے کہ یہ خاص طور پر خطرناک وائرل بیماری نہیں تھی۔
پوشل نے آخری رسومات پر رشتہ داروں کی شرکت پر پابندی کو بلا جواز قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو میت کو چومنا نہیں چاہيے، لیکن آپ ان کو دیکھ سکتے ہیں اور ان کو چھو سکتے ہیں بشرطيکہ آپ اس کے بعد ہاتھ دھو لیں۔
برلن میں تحقیقاتی مرکز شاریٹے کے چیف پیتھالوجسٹ ڈیوڈ ہورسٹ نے بھی روزنامہ برلینر سائٹنگ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اس امر کی تصدیق کی کہ تمام میتوں کو پچھلی بیماریوں کا سامنا تھا، یعنی قلبی نظام یا پھیپھڑوں کا عارضہ۔ ان میں سے کچھ کا وزن بھی زیادہ تھا۔ تاہم، یہ بیماریاں جرمنی میں 65 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں انتہائی عام ہیں۔ ہر تیسرا فرد ان سے متاثر ہے۔
ڈیوڈ ہورسٹ نے اس کو بدقسمتی قرار دیا کہ تمام اموات کی وجہ کرونا کو سمجھا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرنے والوں میں سے سب ہی کو پچھلی بیماریوں کا سامنا تھا، لیکن جان لیوا حد تک نہیں کہ وہ مر ہی جاتے۔