اس موقع پر بنائی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گارڈ پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ سے عقیدت کے نعرے بھی لگا رہا ہے اور اسکے ساتھ موجود مجمع بھی نعرے لگا رہا ہے اور قتل کرنے پر تعریفاً اسکے ہاتھ چومے جا رہے ہیں۔ جبکہ ایک اور ویڈیو کلپ میں وہ ایک عمارت کی چھت پر کھڑا نعروں کا جواب دے رہا ہے اور مجمعے کی آواز ہے جب کہ مذۃبی رہنما اسکے ساتھ موجود ہیں۔
گارڈ کے بیان سے متعلق بتایا گیا ہے کہ اسکا کہنا ہے کہ بینک مینجر احمدی مذہب سے تعلق رکھتا تھا جب کہ وہ توہین رسول کا مرتکب ہوا جس پر اس نے اسے قتل کردیا۔ تاہم ایک اور ویڈیو میں وہ کہہ رہا ہے کہ وہ کہتا تھا کہ نبیوں کے بس کچھ نہیں بس فرض پڑھو سنتیں نہ پڑھو۔ یاد رہے کہ یہ عقیدہ ایک بڑے اسلامی فرقے کا ہے۔
تاہم بینک مینجر کے مبینہ رشتہ داروں اور علاقائی صحافیوں کی ویڈیوز بھی سامنے آئی ہیں جس میں بتایا جا رہا کہ مقتول مسلمان تھا اور گارڈ کا بیان کسی صورت ٹھیک نہیں بلکہ یہ ایک ذاتی رنجش تھی جس کو اب توہین کا الزام لگا کر اور رنگ دیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے نیا دور کے ٹویٹر ہینڈل سے شئیر کی گئی ایسی ہی ایک ویڈیو میں خود کو حالات سے واقف شخص بتا رہا ہے کہ اسکے پاس مستند صحافتی معلومات ہیں کہ وہ احمدی نہ تھا۔ ویڈیو کے کیپشن کے ساتھ لکھا گیا مقتول کہتا تھا کہ اللہ کے نبیوں کے ہاتھ میں کچھ نہیں، اور کہتا تھا صرف فرض پڑھو سنتوں اور نوافل کی ضرورت نہیں‘، قاتل کا بیان یہ تو ایک بڑے مسلک کے مذہبی عقائد ہیں۔ لگتا ہے فرقہ واریت کے نام پر قتل کو توہین کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ تاہم ابھی اس معاملے کی تفتیش کی جا رہی ہے۔
https://twitter.com/nayadaurpk_urdu/status/1323983119465259008