خوشاب میں مسلکی اختلاف کو توہین کا رنگ کیسے دیا گیا؟
مگر بدھ کی صبح خوشاب میں پیش آنے والا واقعہ اس حوالے سے منفرد ہے کہ اس میں جس شخص نے گولی ماری ہے، اس کا اپنا بیان بھی واضح کر رہا ہے کہ یہ توہین کا نہیں، فرقہ واریت کا معاملہ تھا۔ ذرا سنیے اس شخص نے کیا بیان دیا ہے
اس شخص کا کہنا ہے کہ مقتول کا ماننا تھا کہ نبی انسانوں کو کچھ نہیں دے سکتے، ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ وہ مزید کہتا ہے کہ بینک مینیجر جس کو اس نے قتل کیا، یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ نماز میں صرف فرض پڑھنے چاہئیں، نوافل اور سنتوں کی ضرورت نہیں۔ قاتل اسی بینک میں سکیورٹی گارڈ تھا اور اس نے بینک مینیجر کو ان خیالات کی بنیاد پر توہین کا الزام لگا کر قتل کر دیا۔
مقتول کا تعلق غالباً اہلحدیث مکتبہ فکر سے تھا
یہاں قاتل خود جو بیان اس ویڈیو میں دے رہا ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ جس شخص کو قتل کیا گیا، اس کی نیت گستاخی کی نہیں، بلکہ وہ اسلام کے ایک بڑے سنّی مسلک یعنی اہلحدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے۔ اہلحدیث مکتبہ فکر کے مطابق انبیا علیہم السلام بشمول نبی اکرمؐ کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے کچھ نہیں رکھا، وہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے حکم کے پابند ہیں۔ جب کہ بریلوی مکتبہ فکر کے مطابق انبیا علیہم السلام کو خدا نے اختیار دے رکھا ہے لیکن وہ اسے مشیت الٰہی کے مطابق ہی استعمال کرتے ہیں۔ اس معاملے میں مزید تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ دونوں اطراف سے یہ ایک مسلکی بحث ہے جس پر اختلاف اکثر و بیشتر احادیث اور قرآن کی روشنی میں کیا جاتا رہتا ہے اور دونوں ہی مسالک اپنی اپنی طرف سے انہی ماخذوں سے اپنے اپنے مطلب کی بات پر یقین رکھتے ہیں۔ صحیح اور غلط کا فیصلہ تو خدا ہی کی ذات کر سکتی ہے۔
اسی طرح اہلحدیث مکتبہ فکر جو کہ سلفی مکتبہ فکر سے بہت قریب سمجھا جاتا ہے، کے مطابق نماز میں بھی نوافل اور سنتیں اضافی ہیں، اصل نماز محض فرض نماز ہی ہے۔ یہ مسئلہ بھی بریلوی اور اہلحدیث مکتبہ فکر کے درمیان صدیوں سے موضوعِ بحث رہا ہے۔
کیا دفتری معاملے کو توہین کا رنگ دیا جارہا ہے؟
جو کچھ اس واقعے میں ہوا ہے، اس کے حقائق تو پولیس ہی سامنے لے کر آئے گی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ معاملہ گارڈ کو دیر سے آنے پر مینیجر کے ڈانٹنے سے شروع ہوا۔ مینیجر کی جانب سے سختی سے پیش آنے پر دونوں میں بحث ہوئی اور اس گارڈ نے مینیجر کو موقع پر ہی گولی چلا کر ہلاک کر دیا۔ بعد ازاں اس معاملے میں خود کو بچانے کی خاطر اس نے اسے توہینِ مذہب کا رنگ دے دیا۔ ایسا بالکل ممکن ہے اور یہ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں کوئی پہلا واقعہ بھی نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے فیصل آباد میں ایک مسیحی شخص پر زمین کے جھگڑے میں توہین کا الزام مبینہ طور پر ایسے ہی لگایا گیا تھا۔ جوزف کالونی اور گوجرہ کے واقعات میں بھی علاقے کی سیاسی صورتحال کا گہرا عمل دخل تھا۔
مسلکی بنیادوں پر قتل کر کے توہین کا الزام لگانا بھی نیا نہیں۔ اس سے پہلے بہت سے اہل تشیع اور احمدی افراد پر ایسے الزامات لگائے جا چکے ہیں۔
کیا پولیس قاتل کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے؟
اس موجودہ معاملے ہی کی طرح ان معاملات میں بھی مقامی پولیس اور چند طاقتور شخصیات نے قاتل کا ساتھ دیا تھا۔ پشاور کی کچہری میں ہونے والے قتل میں ایک وکیل کی جانب سے قاتل کو پستول فراہم کی گئی تھی۔ بعد ازاں اس کی پولیس کے ساتھ سیلفیاں بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہیں۔ خوشاب کے واقعے میں بھی مقامی افراد نے تھانے کے باہر جمع ہو کر مطالبہ کیا کہ اس شخص کو فوراً چھوڑا جائے۔ پولیس کے مطابق اس معاملے میں دہشتگردی کی دفعات شامل ہوں گی لیکن ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ یہ ویڈیو جو آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں یہ تھانے کی چھت پر کھڑے ہو کر ایک پولیس کا جوان ہی بنا رہا ہے اور یہاں ملزم سمیت کئی لوگ جمع ہیں اور تھانے کے باہر بھی عوام کی اچھی خاصی تعداد کو دیکھا جا سکتا ہے۔
خوشاب واقعہ دیگر توہین کے نام پر قتل کے واقعات سے زیادہ خوفناک کیوں؟
توہین کے معاملے پر لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنا اپنی جگہ، یہاں خوفناک عنصر تو یہ ہے کہ محض فروعی اختلافات پر بھی اب لوگوں کو توہین کا الزام لگا کر قتل کیا جا رہا ہے۔ ان تمام مسالک کے مولوی حضرات ایک دوسرے پر نجی محفلوں اور کتابوں میں تو گستاخی کے فتوے لگاتے ہی رہتے ہیں، لیکن جب گارڈز جن کے ہاتھ میں بندوق لوگوں کی حفاظت کے لئے دی جاتی ہے، وہ مسلکی بنیادوں پر توہین کے الزام لگا کر لوگوں کو قتل کرنے لگیں تو شاید اس ملک میں کسی کی بھی زندگی محفوظ نہیں۔ اس کا ایک ثبوت تو سلمان تاثیر کے معاملے میں سامنے آیا ہی تھا کہ جہاں ان کے محافظ نے ہی ان کو گولیاں مار دی تھیں۔ خوشاب میں ہونے والا واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس لئے حیران کن اور دل دہلا دینے والا ہے کہ اگر مسلکی لڑائیاں اس طرح ہونے لگیں تو اس عفریت کو قابو کرنا شاید ناممکن ہو جائے گا۔