تاہم کمیٹی نے دو دیگر آئینی ترمیمی بلز کی منظوری دی جن کے تحت وزرائے اعلیٰ کے مشیروں کو صوبائی اسمبلیوں کی کارروائی میں حصہ لینے کا اختیار حاصل ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما سید علی ظفر کی سربراہی میں ہونے والے کمیٹی کے اجلاس میں 11 پرائیویٹ ممبرز کے آئینی ترمیمی بل شامل تھے تاہم اسے پیش کرنے والوں میں سے بیشتر کی عدم موجودگی کے باعث انہیں مؤخر کرنا پڑا۔
زیادہ تر اپوزیشن ارکان کی جانب سے پیش کیے جانے والے بلوں میں آرڈیننس کے اجرا، سینیٹ کے اختیارات میں اضافے، وفاق کے معاملات میں صوبوں کی بامعنی شرکت کو یقینی بنانے اور پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق سے متعلق آئین کی مختلف شقوں میں چند اہم تبدیلیاں تجویز کی گئی تھیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر سعدیہ عباسی کی جانب سے خواتین کے لیے وراثت کے حقوق کو آئین کے تحت بنیادی حق دینے سے متعلق بل پر بحث کے دوران کمیٹی کے ارکان اپنی رائے میں منقسم پائے گئے۔
بل کے ذریعے سعدیہ عباسی نے آئین میں ایک نیا آرٹیکل 24 (اے) داخل کرنے کی تجویز دی تھی اور مجوزہ ترمیم میں لکھا تھا کہ ’پاکستان میں کسی بھی عورت کو وراثت سے اس کے حصے سے محروم نہیں کیا جائے گا‘۔
سینیٹ سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک سرکاری اعلامیے کے مطابق اپنے بل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام نے ایک متوفی کے لواحقین، مرد اور عورت کے لیے متعین حصص کی وضاحت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی قوانین خواتین کو غیر منقولہ اور منقولہ جائیدادوں کا حقدار قرار دیتا ہے تاہم اس کے باوجود خواتین کو وراثت میں ان کا حصہ نہ دینے کا عام رواج ہے۔ انہوں نے اسے ایک غیر منصفانہ عمل قرار دیا اور کہا کہ یہ ایک معمول بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے بل کا مقصد وراثت میں خواتین کے حقوق کو اسلام کے اصولوں کے مطابق تسلیم کرنا اور اس پر زور دینا ہے۔ اگر مذکورہ ترمیم منظور ہو جاتی ہے تو اس سے خواتین وراثت سے متعلق معاملات پر براہ راست سپریم کورٹ سے رجوع کر سکیں گی۔
تاہم وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی کا موقف تھا کہ متعلقہ قوانین پہلے سے موجود ہیں اور وراثت کے معاملے کو بنیادی حق کے طور پر درج کرنے کی ضرورت نہیں۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس ترمیم سے خواتین کے وراثت کے حقوق کے تحفظ کے لیے ریاست کے عزم کو تقویت ملے گی۔
تاہم پی پی پی کے ایک اور سینیٹر اور سابق وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے بھی وفاقی وزیر کے نقطہ نظر کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں موجودہ قوانین کے بہتر نفاذ کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
بعد ازاں چیئرمین نے بل کو ووٹ کے لیے اراکین کے سامنے رکھا جسے کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا۔ کمیٹی نے ایک اور آئینی ترمیمی بل کو مسترد کر دیا جسے سعدیہ عباسی نے ہی پیش کیا تھا، جو شہریوں کے ضمانت کے حقوق سے متعلق تھا۔
تاہم کمیٹی نے پاکستان کے قومی ورثے کے مقامات نشاندہی، تحفظ، بحالی اور سب کے لیے رسائی کے حوالے سے سعدیہ عباسی کے پیش کردہ بل کی منظوری دے دی۔