پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال ماہ اکتوبر کو بریسٹ کینسر یعنی چھاتی کے سرطان سے متعلق آگاہی دینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس میں نچلی سطح سے لے کر پالیسی سازوں تک ہر کسی کو اس مہم کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ پنکتوبر قومی آگاہی مہم کا مقصد لوگوں میں بریسٹ کینسر نامی جان لیوا بیماری کے متعلق شعور بیدار کرنا ہوتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق موٹاپا، دیر سے شادی ہونا اور 35 سال کے بعد پہلا بچہ ہونا چھاتی کے کینسر کی عام وجوہات میں سے ہیں۔
پبلک ہیلتھ ایسوسی ایشن خیبر پختون خوا و ضم اضلاع کی صدر ڈاکٹر صائمہ عابد نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 8 میں سے ایک خاتون کو چھاتی کا کینسر لاحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ سینٹرل کینسر رجسٹری میکانزم کی کمی کی وجہ سے پاکستان میں بریسٹ کینسر کے مریضوں کی صحیح تعداد تو معلوم نہیں ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق ملک میں ہرسال 90 ہزار خواتین میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہوتی ہے جبکہ سالانہ 40 ہزار خواتین اس مرض سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر صائمہ عابد نے کہا کہ ہر سال خیبر پختون خوا میں چھاتی کے کینسر کے تقریباً 15 ہزار نئے کیسز رجسٹر ہوتے ہیں۔ چھاتی کے کینسر سے بچاؤ کے چیلنجز میں ناخواندگی، آگاہی اور معلومات کی کمی، سماجی بدنامی کا خوف، ناکافی طبی سہولیات اور ماہرین کی کمی شامل ہیں۔ اگربریسٹ کینسر کی ابتدائی مرحلے میں تشخیص ہو جائے تو زندہ رہنے کے امکانات 90 فیصد سے بڑھ جاتے ہیں۔
خواتین کی صحت یابی کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اس بیماری کے 4 مراحل ہوتے ہیں۔ مریض اگر پہلے مرحلے میں رجوع کریں تو صحت مند ہونے کے امکان 90 فیصد، دوسرے مرحلے میں 80 فیصد، تیسرے میں 70 فیصد اور چوتھے مرحلے میں 60 فیصد ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صائمہ عابد نے کہا کہ خواتین کو چاہیئے کہ اگر کسی کو چھاتی میں تکلیف یا درد محسوس ہو رہا ہو تو اپنی ماؤں، بیٹیوں یا دوسری بڑی خواتین کے ساتھ اس بیماری کے حوالے سے بات چیت کریں اور بروقت ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
فرزانہ پشاور یونیورسٹی سے ماسٹرز کر چکی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور شہر میں زندگی گزارنے کے باوجود بھی جب اُن کو 6 سال قبل چھاتی کے بائیں جانب درد اور گلٹی محسوس ہونا شروع ہوئی تو کئی ہفتے بعد اُنہو ں اپنے بڑی بہن کو اس حوالے سے بتایا۔ فرزانہ نے کہا کہ لیڈی ریڈنگ ہستپال میں معائنے کے بعد ڈاکٹر نے چھوٹی سرجری سے گلٹی نکال دی لیکن چند مہینے بعد چھاتی میں دوبارہ گلٹی محسوس ہوئی۔ وہ دوبارہ ڈاکٹر کے پاس گئے اور انہوں نے دوبارہ سرجری کا مشورہ دیا۔ انہوں نے ایک اور ڈاکٹر سے مشورہ کیا جنہوں نے دوائیں تجویز کیں اور یوں یہ مسئلہ ختم ہوا۔
نارتھ ویسٹ ہسپتال پشاور میں چھاتی کے سرطان کی ماہر ڈاکٹر نایاب خان نے بتایا کہ چھاتی کے گرد کسی بھی قسم کی غیر معمولی تبدیلیاں کینسر کی ابتدائی علامت ہوسکتی ہیں۔ اس لیے ان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے اور فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیئے۔ انہوں نے بتایا کہ 20 سے 40 سال کی عمر کی خواتین کو اپنا معائنہ کرانا چاہیئے اور اگر ممکن ہو تو تین سال میں ایک بار ڈاکٹر کے پاس ضرور جائیں جبکہ 40 سال سے زیادہ عمر کی خواتین کو سال میں ایک بار اسکریننگ کے لیے ضرور جانا چاہیئے۔
ڈاکٹر نایاب خان نے یہ بھی بتایا کہ خیبر پختون خوا میں چھاتی کے کینسر کے 75 فیصد سے زیادہ کیسز عمر رسیدہ خواتین میں رپورٹ ہوتے ہیں جن کا تعلق دیہی علاقوں سے ہوتا ہے۔
رکن صوبائی اسمبلی حمیرا خاتون نے صوبے میں بریسٹ کینسر کے حوالے سے بتایا کہ کچھ ماہ قبل میں نے جب سوال نمبر12757 کے ذریعے اسمبلی فلور کے اوپر صوبائی وزیر صحت سے صوبے میں بریسٹ کینسر کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد کے بارے میں پوچھا تو محکمہ صحت کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کل 891 مریض بتائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں کے یہ اعداد وشمار صرف حیات میڈیکل کمپلیس پشاور سے لئے گئے ہیں جن کے مطابق 2017 کے اندر 131، 2018 میں 144، 2019 میں 143، 2020 میں 248 اور 2021 میں 225 مریض رجسٹرڈ ہوئے۔ لیکن ان میں باقی پانچ مراکز میں رجسٹرڈ ہونے والے مریضوں کا ڈیٹا شامل نہیں کیا گیا۔ رکن صوبائی اسمبلی کو موصول ہونے والے جواب کے مطابق صوبے میں بریسٹ کینسر کے علاج کے لیے کل 6 مراکز قائم ہیں جن میں حیات میڈیکل کمپلیس (پراجیکٹ بیسڈ)، ارنم پشاور، اینار ایبٹ آباد، سینار سوات، بینار بنوں اور دینار ہسپتال ڈیرہ اسماعیل خان شامل ہیں۔
پاکستان میں بریسٹ کینسر کے لیے کام کرنے والی تنظیم پِنک ربن کے چیف ایگزیکٹیو عمر آفتاب کے مطابق پورے ایشیا میں بریسٹ کینسر پاکستان میں سب سے زیادہ ہے اور پاکستان میں ہر 9 خواتین میں سے 1 کو بریسٹ کینسر ہونے کا خطرہ ہے۔ عمر آفتاب نے کہا کہ بریسٹ کینسر سے شرح بقا میں اضافہ کے لیے ضروری ہے کہ چھاتی کے کینسر کی بروقت تشخیص ممکن بنائی جا سکے تا کہ کینسر سے جڑی خرافات اور ممنوعات سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ معاشرتی دباؤ کے باعث چھاتی کے کینسر میں مبتلا 70 فیصد خواتین تشویش ناک حالت کو پہنچ کر ڈاکٹر سے رجوع کرتی ہیں۔
ان کے مطابق خواتین کی اس جان لیوا بیماری کی علامات کو نظر انداز کرنے کے پیچھے کچھ عوامل ہیں جیسے کہ اس مرض سے متعلق لاعلمی، میموگرام کی سہولت کی عدم دستیابی، نسوانیت ختم ہونے کی تشویش اور اس بیماری سے جڑے سماجی معاملات وغیرہ۔
خیبر پختونخوا کمیشن برائے وقار نسواں کی چیئرپرسن ڈاکٹر رفعت سردار نے بتایا کہ بریسٹ کینسر کے حوالے سے میڈیا میں جو اعداد و شمار رپورٹ ہو رہے ہیں، سبھی اندازوں پر مبنی ہیں۔ ہماری اطلاع کے مطابق ابھی تک صرف پنجاب نے یہ ڈیٹا جمع کرنا شروع کیا ہے۔ باقی کسی صوبے میں اس حوالے سے ڈیٹا جمع نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن کے پاس تو محدود وسائل ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ہم ہر سال کوشش کرتے ہیں کہ ایک ہفتہ بریسٹ کینسر کے حوالے سے منائیں جس میں آگاہی سیمنار منعقد کیے جاتے ہیں۔
ڈاکٹررفعت سردار نے بتایا کہ کمیشن ابھی پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر جینڈر منیجمنٹ انفارمیشن سسٹم بنا رہا ہے جس میں خواتین کے حوالے سے مکمل ڈیٹا جمع کیا جائے گا۔ ابھی ہم نے بریسٹ کینسر کے حوالے سے بھی ایک انڈیکیٹر رکھا ہے جو کہ ہم محکمہ صحت سے ڈیمانڈ کریں گے اور اُن کو اس بات پر مجبور کریں گے کہ وہ ہمیں یہ ڈیٹا مہیا کریں تاکہ جب کمیشن کوئی معلوماتی پمفلٹ جاری کریں تو اس جینڈر منیجمنٹ انفارمیشن سسٹم کے تحت ہم سارے محکموں سے خواتین کا ڈیٹا مانگیں گے جو کمیشن عوام کی آگاہی کے لیے شائع کرے گا۔
چیئرپرسن نے بتایا کہ موجودہ حالت میں محکمہ صحت کے پاس ڈیٹا جمع کرنے کے لیے ہیلتھ انفارمیشن سسٹم موجود ہے لیکن بدقسمتی سے اس میں بریسٹ کینسر کے حوالے سے ڈیٹا جمع نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت کو چاہئیے کہ وہ پولیو، ملیریا اور دوسرے موذی امراض کی طرح بریسٹ کینسر کے مریضوں کے لیے بھی رجسٹری میکانزم بنائیں تاکہ اصل اعداد و شمار معلوم کیے جا سکیں۔
ڈی آئی خان انسٹیٹوٹ آف نیوکلیئر میڈیسن اینڈ ریڈیوتھراپی (دینار) میں نام نہ بتانے کی شرط پرذرائع نے بتایا کہ یہ ہسپتال 2012 میں قائم ہوا تھا۔ یہاں پر ہر سال دینار پیشنٹس ویلفئیر سوسائٹی کے تعاون سے 21 اکتوبر سے 31 اکتوبرتک بریسٹ کینسر آگاہی مہم چلائی جاتی ہے جس میں مریضوں کو تمام تر سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ڈائریکٹر دینار ہسپتال ڈاکٹر نبیلہ جاوید خیبر پختون خوا کی ایک سینیئر انکالوجسٹ ہیں۔ اس کے علاوہ دو اور لیڈی ڈاکٹرز بھی ہیں جن کی نگرانی میں تمام مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ عام دنوں میں ہم میموگرافی (چھاتی کے ایکسرے) کے لیے 15 سو روپے فیس لیتے ہیں لیکن آگاہی مہم کے دوران یہ سہولت بھی مفت مہیا کی جاتی ہے۔ اس عمل میں کم ماہیئت کے ایکسرے کا استعمال کر کے گلٹی سے متعلق زیادہ معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس سے چھاتی کے کینسر کی ابتدائی مرحلے میں تشخیص میں مدد ملتی ہے۔
علاج کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ بریسٹ کینسر کا علاج تین طریقوں سے ہوتا ہے جس میں پہلے نمبر پر سرجری، دوسرے نمبر پر ریڈیو تھراپی یعنی شعاعوں سے علاج اور تیسرے نمبر پر کیموتھراپی ہے جس میں دواؤں کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس مریضوں کا علاج ریڈیو تھراپی اور کیموتھراپی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ان دو طریقوں میں ایسے بھی کچھ انجیکشنز ہیں جو بہت مہنگے ہیں اور جن کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپے تک ہے لیکن یہ سب صحت کارڈ کے ذریعے مفت ہو رہا ہے۔ اعداد و شمار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس پچھلے پانچ سالوں میں کل 758 مریضوں کا علاج کیا جا چکا ہے۔
ڈائڑیکٹر کیوریٹیو محکمہ صحت ڈاکٹر سعیدہ محسود نے بتایا کہ حکومت کے ساتھ عوام کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس موذی مرض کے حوالے سے اپنی کمیونٹی میں آگاہی پھیلائیں۔ حکومت کی کوشش ہے کہ آگاہی پروگرام میں لیڈی ہیلتھ ورکرز سے ڈور ٹو ڈور کمپین کروائیں گے تا کہ نچلی سطح پر عوام میں شعور بیدار کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت خیبر پختون خوا نے مفت کینسر علاج کا دائرہ کار حیات میڈیکل کمپلیکس پشاور سے دیگر اضلاع تک پھیلانے اور اس کو صحت کارڈ پلس میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ صحت کارڈ پلس میں ہیلتھ پیکیج کو 10 لاکھ روپے سالانہ سے بڑھا کر 1 کروڑ روپے تک کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
صوبے میں خواتین کی فلاح و بہبود کے حوالے سے ایم پی اے اور پارلیمانی ویمن کاکس کی چیئرپرسن ڈاکٹر سمیرا شمس نے بتایا کہ پچھلے مالی سال کی نسبت امسال خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے 3.5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جو کہ تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خواتین کی فلاح و بہبود اس بات سے عیاں ہے کہ جنوبی ایشیا کا سب سے پہلا کامیاب صحت سہولت پروگرام پختون خوا حکومت نے لانچ کیا جس کے تحت اب تک 15 لاکھ سے زائد مریضوں کے علاج پر 39 بلین روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔ ان مریضوں میں 52 فیصد خواتین ہیں۔