چند لمحوں کی خاموشی کے بعد منوج کمار نے لب کشائی کر ہی دی۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں دھیرے دھیرے کہنا شروع ہوئے ’فلم بہت اچھی ہے چندرا۔ شروع سے آخرتک تمہاری ڈائریکشن نے تومجھے خود دنگ کردیا۔‘ ہدایتکار چندرا نے سکون کا سانس لیا۔ اب ان کے چہرے پر ہلکی سی اطمینان بخش مسکراہٹ تھی۔ انہیں لگا کہ وہ اپنے پہلے امتحان میں پاس ہوگئے ہیں۔ وہ خاصے مسرور تھے۔ لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی کیونکہ ان کے کانوں میں منوج کمار کی آواز پھر آئی ’لیکن۔۔۔ اسٹارٹ سے کلائمکس تک پوری فلم میں تناؤ ہے۔ ایک کشمکش چل رہی ہے۔جنگ ہے۔ یہاں تک کہ تناؤ کا شکار تمہاری فلم کے بیشتر گیت بھی ہیں۔‘ ہدایتکار کو اپنی سانس گلے میں اٹکتی محسوس ہورہی تھی لیکن وہ انتہائی توجہ اور انہماک کے ساتھ منوج کمار کی بات سن رہے تھے جو کہہ رہے تھے ’لگتا ہے تم فلم بناتے ہوئے اُن تماشائیوں کو بھول گئے جو سنیما گھروں میں تفریح کے لیے آتے ہیں۔ یقیناً تمہاری فلم میں گلیمر ہے‘ ایکشن ہے‘ ایڈونچر ہے لیکن تفریح کا کوئی عنصر نہیں۔ایسا پہلو جو فلم بینوں کو تھوڑی دیر اس تخلیق کے تناؤ زدہ ماحول کو کچھ خوشگوار کرسکے۔ کوئی ہلکا پھلکا سا گیت شامل کرو‘ تاکہ دیکھنے والوں کو کچھ تو سکون ملے۔ سمجھ آیا۔‘ یہ کہتے ہوئے منوج کمار کوٹ اٹھا کر کمرے سے نکل گئے۔
چندرا‘ منوج کمار کی بہت قدر اور احترام کرتے تھے۔ جانتے تھے کہ وہ فلم بینوں کی دکھتی رگ سے واقف ہیں اور ان کی تنقید یا تجویز ان کے لیے بہت معنی رکھتی تھی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ کون سا گیت شامل کیا جائے۔ چندرا نے فوری طور پر موسیقار جوڑی کلیان جی آنند جی سے رابطہ کیا۔ جن کے سامنے فرمائش رکھی ان کے پٹاری میں ہے کوئی ہلکا پھلکا سا گانا۔ جنہوں نے ہدایتکار کو بتایا کہ انہوں نے 1973میں دیو آنند کی فلم ’بناری بابو‘ کے لیے ایک گیت ’کھائی کے پان بنارش والا ‘ تیار کیا تھا لیکن بدقسمتی سے وہ فلم میں شامل نہ ہوسکا ۔ چندرا بھاگم بھاگ یہ گانا سننے کے لیے کلیان جی آنند جی کے پاس پہنچے‘ جو انہیں پسند بھی آگیا۔ اب رائٹر جوڑی سلیم جاوید کو بتایا گیا کہ جتنی جلدی ہو‘ کوئی اسکرین پلے لکھیں۔ طے یہ ہوا کہ’ ڈان‘ کا ہم شکل یعنی امیتابھ بچن پان بہت کھاتے ہیں‘ اسی لیے سچویشن یہ ڈالی گئی کہ غنڈوں سے بچتے بچاتے وہ اور زینت امان ایک بستی کا رخ کرتے ہیں۔
جہاں دلچسپ مکالمات کے بعد گیت ’ کھائی کے پان بنارس والا‘ گایا جاتا ہے۔ انجان کا لکھا ہوا گیت تھا۔ جسے کشور کمار نے باقاعدہ پان کھاتے ہوئے ریکارڈ کرایا تھا۔ امیتابھ بچن اور زینت امان سے عکس بندی کے لیے اضافی تاریخیں مانگی گئیں‘ دونوں نے وجہ دریافت کی تو ہدایتکار چندرا نے ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے منوج کمار کا نام لیے بغیر یہ کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ فلم میں کوئی چلبلا سا گیت ہونا چاہیے اور ایک گیت ان کے پاس ہے اُسی کی عکس بندی کی جائے گی۔
امیتابھ اور زینت امان مان بھی گئے اور پھر چند ہی دنوں میں اس گیت کی عکس بندی کا آغاز ہوا۔ حقیقت سے قریب تر کرنے کے لیے امیتابھ بچن کے ہونٹوں پر سرخ رنگ نہیں لگایا گیا بلکہ انہوں نے باقاعدہ پان بھی کھائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ساڑھے چار منٹ کے گانے کے دوران انہوں نے کم و بیش چالیس پان کھائے ہوں گے اور یہ سارے پان کسی اور کے نہیں موسیقار آنند جی کے تھے جو پان کے خاصے شوقین تھے۔ اب اس قدر پان کھانے کے بعد چونے کی وجہ سے امیتابھ بچن کی زبان بھی اچھی خاصی کٹ گئی تھی۔ گیت کو فلم میں شامل کیا گیا اور جب یہ تخلیق 1978میں سنیما گھروں کی زینت بنی تو جہاں یہ سپر ڈوپر گولڈن جوبلی ہٹ ثابت ہوئی۔
وہیں کشور کمار کے حصے میں ’ کھائی کے پان بنارس والا‘ کے باعث بہترین پلے بیک سنگر کا فلم فئیرایوارڈ آیا۔ وہ گیت جسے نجانے کیوں ’بنارسی بابو‘ کی زینت نہیں بنایا گیا تھا۔ جبکہ امیتابھ بچن نے بہترین اداکار کا اعزاز پایا۔ یہی نہیں منوج کمار کے مشورے پر آخری لمحات میں فلم میں شامل ہونے والے اس گیت کے نغمہ نگار انجان بھی فلم فئیر ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئے مگر وہ اس سے محروم رہے۔’ ڈان‘ کو آج بھی بالی وڈ کی کلاسک فلم میں شمار کیا جاتا ہے لیکن یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ہدایتکار چندرا نے ’ ڈان‘ کے بعد چار اور فلمیں بنائیں لیکن وہ ساری کی ساری تین چار دن تک سنیما گھروں میں لگنے کے بعد فلم بینوں کے دلوں سے بھی اتر گئیں۔