یہ بات انہوں نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام آج '' خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ پروگرام میں شریک مہمان عامر غوری کا کہنا تھا کہ کہا جا رہا تھا کہ پانامہ پیپرز سے بہت بڑا ایک سکینڈل سامنے آنے والا ہے جس میں بڑے بڑے لوگوں کے نام آئیں گے لیکن جو امیدیں اس تحقیقاتی رپورٹ سے لگائی گئی تھیں، ویسا نہیں ہوا۔
عامر غوری نے کہا کہ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ پانامہ پیپرز کے بعد جس طرح پاکستانی اداروں نے اس پر ردعمل دیا تھا، اس پر سوال اٹھنے لگے تھے کیونکہ جن لوگوں پر الزام لگے تھے ان کو تو نہیں پکڑا گیا لیکن ان کے رشتہ داروں کو پکڑ لیا گیا، کسی کی حکومت ختم کر دی گئی تو کسی کیخلاف مقدمات قائم کرنا شروع کر دیئے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلے 30 چالیس سالوں میں اشرافیہ کے آپس میں رشتہ داریاں ہو چکی ہیں۔ جاگیرداروں، صنعت کاروں، سول بیوروکریسی، علمائے کرام اور ٹیکنو کریٹس کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے۔ جب ایک بندہ پکڑا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے ان کی تو آپس میں رشتہ داریاں ہیں، سب ایک دوسرے کو پروٹیکٹ کر رہے ہیں۔
بینش سلیم کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ بالکل یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عمران خان جو کہتے چلے آئے ہیں، وہی ان کے سامنے آ رہا ہے۔ پینڈورا پیپرز میں جن شخصیات کا نام سامنے آیا ہے ان میں شوکت ترین، عبدالعلیم خان، خسرو بختیار، مونس الہیٰ اور فیصل واوڈا کے نام شامل ہیں۔ عمران خان اپنے مخالفین کو چھوڑتے نہیں لیکن اپنے بندوں کو ہاتھ تک نہیں لگاتے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے ترجمان ہوں یا حکومت کے، وہ چاہتے ہیں کہ ان کا کہا ہوا پورے ملک کا کہا ہوا مانا جائے۔ یہ صحافیوں کو دھمکاتے ہیں، انھیں ڈکٹیٹ اور ہراساں کرتے ہیں۔
پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ ہمیں یہ معلوم تھا کہ پاکستانی اشرافیہ کے کپڑے ازل سے ہی اترے ہوئے تھے، یہ انگریز دور سے ہی ایسا ہے، اب پینڈورا اور پانامہ پیپرز دینے والے صحافی بس اتنا ہی بتا رہے ہیں کہ اشرافیہ ننگے ہو چکے ہیں۔
رضا رومی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ عمران خان نے پانامہ کے دوران مطالبہ کیا تھا کہ جن لوگوں کے نام اس میں شامل ہیں وہ استعفے دیں اور اپنے نام کلیئر کرائیں، یہ اصول 2021ء میں ایک دم سے کیسے بدل گیا؟
اس کا جواب دیتے ہوئے مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ یہ پیشکش محدود مدت کیلئے تھی، اس کے جملہ حقوق محفوظ ہیں، لہذا اس کا اطلاق عمران خان کے نئے پاکستان میں نہیں ہو سکتا، یہ سب پرانے پاکستان کی باتیں ہیں۔ اسے اب بھولنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔