انکم ٹیکس گوشوارے نہ جمع کروانے والے تمام شہری سزا کے مستحق نہیں

ایڈوانس انکم ٹیکس ادا کرنے والے لاکھوں پاکستانیوں کے خلاف افسوس ناک بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈہ مہم کو روکنا ضروری ہے۔ وہ قومی خزانہ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں حالانکہ قانون کے مطابق ان کو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

05:51 PM, 4 Oct, 2024

حذیمہ بخاری، ڈاکٹر اکرام الحق

حکومت نے ٹیکس قوانین سے نان فائلرز کو ختم کرنے اور ان کی 15 اقسام کی سرگرمیوں پر بتدریج پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کیونکہ اسے موجودہ فائلرز سے زیادہ ریونیو حاصل کرنے اور نان فائلرز کو سزا دینے کے لیے پاکستان کے سرکردہ صنعت کاروں کی جانب سے غیر معمولی حمایت حاصل ہوئی ہے۔۔ حکومت نان فائلرز کے خلاف کسی بھی حد تک جائے گی، ایکسپریس ٹریبیون، 25 ستمبر 2024

حکومت انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی قانونی بندش سے مبرا افراد جیسے گھریلو خواتین، 600,000 روپے سے کم سالانہ آمدنی والے افراد اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے خدشات کو دور کرنے کے لیے ایک مربوط نظام متعارف کرانے کے لیے تیار ہے۔ مجوزہ نظام کے تحت، 'خاندان' کی کیٹگری کو انکم ٹیکس قانون میں داخل کیا جائے گا، جس کے تحت میاں یا بیوی، 25 سال سے کم عمر کے بیٹوں اور غیر شادی شدہ بیٹیوں کو شوہر، بیوی یا باپ کے گوشوارہ دہندہ ہونے کا فائدہ اٹھانے کی اجازت ہو گی۔۔ ٹیکس فائل کرنے کا بوجھ کم کرنے کے لیے فیملیز کے لیے نئی کیٹیگری، دی ڈان، 26 ستمبر 2024

اخبارات کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر پچھلے 10 دنوں سے موجودہ حکومت کے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 سے 'نان فائلر' کے ناپسندیدہ زمرے کو ختم کرنے کے فیصلے اور اس کے اثرات پر مسلسل بحث ہو رہی ہے، اگرچہ اس ضمن میں کوئی قانونی مسودہ آج تک جاری نہیں ہوا۔ کسی نے اس بات کا تذکرہ ہی نہیں کیا کہ نان فائلر کی اصطلاح تو مالیاتی ایکٹ 2019 کے ذریعے قانون سے خارج کر دی گئی تھی۔ حیرت ہے کہ سرکاری حلقے اور نام نہاد ماہرین ٹیکس اب بھی اس کا استعمال کیوں کر رہے ہیں جبکہ درست اصطلاح 'نا دہندہ' (ڈیفالٹر) ہے، جس سے مراد ہے کہ قانون کے مطابق انکم ٹیکس ریٹرن واجب ہونے کے باوجود وقت پر داخل نہیں کرائے گئے۔ 

اہم سوال یہ ہے کہ جس فرد پر قانون کے مطابق انکم ٹیکس ریٹرن واجب نہیں کیا اس کو بھی سزا ملنی چاہیے؟ کیا پاکستان کے تمام 'ٹیکس دہندہ' کو 'گوشوارہ دہندہ' بھی ہونا چاہیے؟

'ٹیکس دہندہ' (taxpayer) کی اصطلاح جو کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 2(66) میں بیان کی گئی ہے، اس میں وہ تمام افراد شامل ہیں جن سے کسی قسم کا انکم ٹیکس ودہولڈنگ کے ذریعے حاصل کیا گیا ہو، چاہے ان کی کوئی قابل ٹیکس آمدنی بھی نہ ہو۔ اگر کوئی 'ٹیکس دہندہ' ہونے کے باوجود ایف بی آر کی ایکٹو ٹیکس دہندگان کی فہرست (ATL) میں ظاہر نہ ہو تو اس سے انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن BA 100 کے تحت نمٹا جاتا ہے، جس کی تفصیل انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے دسویں شیڈول میں ملتی ہے۔

'ٹیکس دہندہ' اور 'گوشوارہ دہندہ' دو مختلف قانونی اصطلاحات ہیں۔ حکومت در اصل 'گوشوارہ نا دہندہ' سے جس پر گوشوارہ واجب تھا، زائد شرح پر ودہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے کی بات کر رہی ہے تا کہ ان کو نا دہندہ یا ڈیفالٹر قرار دے کر قانونی کارروائی کا آغاز کیا جائے۔

'نان فائلر' کی جدت آمیز اصطلاح پہلی بار فنانس ایکٹ 2014 کے ذریعے متعارف کرائی گئی تھی، جو پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے خود ساختہ اقتصادی جادوگر، محمد اسحاق ڈار، جو اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چوتھے نائب وزیر اعظم، 39 ویں وزیر خارجہ اور پاکستان کی سینیٹ میں قائد ایوان بھی ہیں، کی سربراہی میں تیار کیا گیا تھا۔

Daronomics کے تحت 'نان فائلر' کی اختراع کا بظاہر مقصد انکم ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنا تھا۔ تاہم، پچھلے 10 سالوں میں یہ پاکستان کی بدنام ترین ریونیو اتھارٹی، فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) کے لیے محض زائد شرح سے ودہولڈنگ انکم ٹیکس کی وصولی کا ایک ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔

 یاد رہے کہ معروف مصنف، سابق گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان، ماہر معاشیات اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں وزیر اعظم کے مشیر، ڈاکٹر عشرت حسین نے Daronomics کی اصطلاح پاکستان میں اقتصادی اور سیاسی معاملات کے درمیان پیچیدہ تعلق بیان کرنے کے لیے بنائی تھی۔ یہ سب جانتے ہیں کہ ایف بی آر ودہولڈنگ اور پیشگی وصولی کے ذریعے 90 فیصد براہ راست ٹیکس کی وصولی کے لئے جانا جاتا ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کم از کم 100 ملین پاکستانیوں نے بطور موبائل اور/یا براڈ بینڈ صارفین اور انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے تحت لگ بھگ 68 قسم کے ود ہولڈنگ ٹیکسوں کی وجہ سے مالی سال 2022-23 کے دوران ایڈوانس انکم ٹیکس ادا کیا۔ لیکن ان میں سے تقریباً 1.5 فیصد افراد نے ہی ٹیکس سال 2023 کے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروائے، جس میں کچھ قابل ٹیکس آمدنی دکھائی گئی۔ اکثریت نے گوشوارں میں صفر آمدنی یا قابل ٹیکس حد سے کم ظاہر کی اور زیادہ تر کمپنیز نے خسارہ دکھاتے ہوئے اپنے بیان کردہ ٹرن آؤٹ پر کم سے کم ٹیکس ادا کیا۔

انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے سیکشن 114 اور 114A کے نفاذ میں ایف بی آر کی کارکردگی انتہائی مایوس کن اور افسوس ناک ہے! قابلِ ٹیکس آمدنی والے تمام افراد سے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے قانونی عمل کا نفاذ کس قدر کمزور ہے اس حقیقت سے واضح ہوتا ہے کہ مالی سال 2022-23 کے دوران تقریباً 120 ملین شہریوں نے موبائل یا براڈ بینڈ صارفین کے طور پر 15 فیصد پیشگی انکم ٹیکس ادا کیا جو ایڈجسٹ ایبل تھا۔ اس میں پری پیڈ اور پوسٹ پیڈ دونوں صارفین شامل تھے۔ ایف بی آر کی ویب سائٹ کے مطابق فعال انفرادی ٹیکس دہندگان جنہوں نے ٹیکس سال 2023 کے گوشوارے جمع کرائے، (یہ فہرست  ہر پیر کو اپ ڈیٹ کی جاتی ہے) 23 ستمبر 2024 تک 3,886,709 تھی۔

تقریباً 70 فیصد فائلرز نے NIL آمدنی ظاہر کی یا قابل ٹیکس حد سے کم آمدن یا خسارہ۔ زیادہ تر گوشوارے صرف زیادہ شرح کے ودہولڈنگ ٹیکس سے بچنے کے لیے داخل کیے جاتے ہیں! ایف بی آر کی جانب سے فعال ٹیکس دہندگان کی لسٹ پر تازہ ترین اپ ڈیٹ مورخہ 30 ستمبر 2024 کے مطابق ریٹرن فائلرز کی کل تعداد 5,802,299 تھی جس میں ٹیکس سال 2024 کے گوشوارے بھی شامل تھے۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مطابق، 30 جون 2024 تک کل سیلولر/براڈ بینڈ صارفین کی تعداد 193 ملین (79.44 فیصد موبائل کثافت)، 135 ملین موبائل براڈ بینڈ صارفین (55.61 فیصد موبائل براڈ بینڈ کی رسائی)، 3 ملین فکسڈ ٹیلی فون صارفین تھے۔ 1.06 ٹیلی کثافت) اور 138 ملین براڈ بینڈ صارفین (57.05 فیصد براڈ بینڈ رسائی) تھے۔

31 اگست 2024 کے لیے دستیاب تازہ ترین اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں: کل سیلولر/براڈ بینڈ صارفین 193 ملین (79.41 فیصد موبائل کثافت)، 138 ملین موبائل براڈ بینڈ صارفین (56.72 فیصد موبائل براڈ بینڈ رسائی)، 3 ملین فکسڈ ٹیلی فون صارفین (1.06 ٹیلی کثافت) اور42 1 ملین براڈ بینڈ صارفین (53.19 فیصد براڈ بینڈ رسائی)۔

مندرجہ بالا اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ مالی سال 2022-23 کے دوران 120 ملین منفرد موبائل صارفین میں سے جن نے ایڈوانس/ایڈجسٹ ایبل انکم ٹیکس ادا کیا، 100 ملین کی کوئی آمدنی یا آمدنی ٹیکس قابل حد سے کم نہیں تھی! ایف بی آر بقایا 20 ملین قابل ٹیکس افراد کو رجسٹر کرنے اور ان سے گوشوارے حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ مالی سال 2022-23 کے دستیاب ڈیٹا کی بنیاد پر۔۔ جس میں ٹیلی کام ان کے ہینڈ سیٹس، سفری تاریخ اور بلوں کی مقدار وغیرہ شامل ہیں۔۔ قابل ٹیکس افراد کی تعداد 20 ملین سے کم نہیں ہو سکتی۔

 پوری قابل ٹیکس آبادی کی رجسٹریشن اور انہیں ریٹرن فائلرز بنانے سے ' نان فائلرز' کے خود ساختہ زمرے کو ختم کیا جا سکتا تھا! درحقیقت، ایف بی آر کی جانب سے جان بوجھ کر گریز کیا گیا تاکہ غریب ترین موبائل صارفین سے 75 فیصد جابرانہ ایڈوانس انکم ٹیکس وصول کرنے کے جواز کو برقرار رکھا جا سکے، جن کی قابل ٹیکس آمدنی نہیں ہے۔کیا ان سب کو سزا ملنی چاہیے؟

ایف بی آر اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ یکم جولائی 2024 سے پوری قابل ٹیکس آبادی اور یہاں تک کہ وہ افراد جن کی کوئی آمدنی نہیں یا قابل ٹیکس حد سے کم آمدنی ہے بھی ایڈوانس اور ایڈجسٹ ایبل 15فیصد انکم ٹیکس بطور گوشوارہ دہندہ اور 75 فیصد بطور نا گوشوارہ دہندہ ادا کر رہے ہیں۔ اس ناقابل تردید حقائق کے پیش نظر، ایف بی آر اور دیگر لوگ کس منطق کے تحت پاکستانیوں کو ٹیکس چور اور دھوکے باز قرار دے رہے ہیں!

ایف بی آر کی طرف سے 'محدود ٹیکس کی بنیاد' کا مسلسل منفی اور بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈہ، اور بعض اداروں کی طرف سے میڈیا مہم، غیر ملکی حکومتوں اور غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کی طرف سے فنڈنگ کہ پاکستانی آبادی کا صرف 1 فیصد انکم ٹیکس ادا کرتا ہے، انتہائی افسوسناک ہے۔ ظاہر ہے، وہ جان بوجھ کر 'ادائیگی کرنے والوں' اور 'گوشوارہ دہندگان' کے درمیان فرق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

ایڈوانس انکم ٹیکس ادا کرنے والے لاکھوں پاکستانیوں کے خلاف افسوس ناک بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈہ مہم کو روکنا ضروری ہے۔ وہ قومی خزانہ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں حالانکہ قانون کے مطابق ان کو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان لوگوں کے معاملے میں جو قابل ٹیکس آمدنی نہیں کما رہے ہیں، ودہولڈنگ کی دفعات غیر آئینی ہیں۔ 

چونکہ ہمارے حکمران اور ٹیکس بیوروکریٹس (ریونیو کریسی) بے بنیاد مہم چلاتے ہیں اور یہ غلط تاثر پھیلاتے ہیں کہ 'ہماری ٹیکس کی بنیاد انتہائی تنگ ہے'، اس لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF)، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) اور برطانیہ کے غیر ملکی ادارے، کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس (FCDO) وغیرہ حقائق کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے اس بیانیے کو فروغ دینے والے بینڈ ویگن میں شامل ہو جاتے ہیں جو بالکل برعکس ہیں۔

لاکھوں پاکستانی، قابل ٹیکس آمدنی نہیں کما رہے، ایڈوانس انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ان سے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ایف بی آر میں بیٹھے دانشور اور ان کے سیاسی آقا چاہتے ہیں کہ وہ ایسا کریں۔ دوسرے لفظوں میں، وہ بے ضمیر حکام اور استحصالی ٹیکس مشیروں کے استحصال پر مجبور ہیں! یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل(c) 4کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس میں کہا گیا ہے؛ 'کسی بھی شخص کو وہ کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا جو قانون اس سے کرنے کا تقاضا نہیں کرتا'۔

ہماری یکے بعد دیگر حکومتوں نے، سویلین اور ملٹری یکساں طور پر، زیادہ سے زیادہ ٹیکس ریونیو کی اپنی پیاس بجھانے کے لیے غریب سے غریب ترین لوگوں کو چن لیا ہے! انہوں نے بڑے ٹیکس چوروں، کارپوریٹ اداروں، پارلیمنٹیرینز، ججوں اور فوجی اعلیٰ افسران کے خلاف کبھی سنجیدگی سے کریک ڈاؤن نہیں کیا کہ وہ قانون کے مطابق اپنی ٹیکس ذمہ داریاں ادا کریں بلکہ انہیں ٹیکس میں رعایت، چھوٹ اور معافی کی پیشکش کی گئی۔ ایف بی آر نے بھی تمام کاروباری اداروں کی رجسٹریشن، ٹیکس لیکیجز اور ان کی صفوں میں پھیلی ہوئی بدعنوانی کی جانچ کر کے اربوں کے ٹیکس خلا کو پورا کرنے میں کبھی دلچسپی نہیں دکھائی۔

موجودہ حکومت اپنے پیشروؤں کی طرح اپنے خوفناک حجم اور بے پناہ اخراجات میں کمی اور معاشی ترقی کی ترغیب دینے میں مائل نہیں ہے۔ یہ کیسی حکومت ہے جو اپنے افسروں کی عیش و عشرت کے لیے اپنے ضرورت مندوں کو لوٹ رہی ہے؟ لوگوں پر کس قسم کے قوانین مسلط کیے جا رہے ہیں جہاں انہیں وہ کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو آئین ان سے کرنے کا تقاضا نہیں کرتا۔ جب انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 قانونی طور پر انہیں آمدنی کا ریٹرن فائل کرنے کا پابند نہیں کرتا ہے، تو پھر حکومتی اہلکار کیوں اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ وہ ریفنڈ کا تقاضا کرنے کے لیے ایسا کریں، جس کا حصول، ویسے تو ناممکن ہے۔

جو لوگ ٹیکس قوانین میں شہریوں کو جائیداد خریدنے، بینک اکاؤنٹ کھولنے، جائز آلات میں سرمایہ کاری کرنے، بیرون ملک سفر وغیرہ سے روکنے کے لیے ٹیکس قوانین میں ترمیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، انہیں فنانس ایکٹ 2018 کے ذریعے کی گئی کوششوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ 5 ملین سے زیادہ کی پراپرٹی کی خرید کے لئے گوشوارہ داخل کرنے کی شرط نہ صرف کاروبار مخالف تھی بلکہ غیر آئینی بھی تھی۔ قومی اسمبلی نے یہ قانون پاس کر کے ربڑ سٹیمپ کا کام کیا۔ اس نے یہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ آیا وہ ایسی شرط عائد کر سکتی ہے جو آئین کے آرٹیکل 4، 23، 25 اور 142 کی براہ راست خلاف ورزی ہو۔ شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا کوئی بھی قانون ابتدائی طور پر کالعدم ہوتا ہے، چاہے مقننہ کے پاس اسے نافذ کرنے کا اختیار ہو۔

کسی بھی شہری کے جائیداد کے حصول کے حوالے سے، آئین ناقابل تنسیخ بنیادی حق دیتا ہے جس کی فنانس ایکٹ 2018 میں خلاف ورزی کی گئی تھی، بعد میں متعدد رٹ پٹیشنز دائر کیے جانے کے بعد اسے واپس لے لیا گیا۔ آئین کا آرٹیکل 23 واضح طور پر کہتا ہے؛

'ہر شہری کو آئین اور عوامی مفاد میں قانون کی طرف سے عائد کی گئی کسی بھی معقول پابندی کے تابع پاکستان کے کسی بھی حصے میں جائیداد حاصل کرنے، رکھنے اور تصرف کرنے کا حق ہوگا'۔

یہ شرط کہ انکم ٹیکس گوشوارہ نا جمع کروانے والا فرد جائیداد نہیں خرید سکتا نہ تو معقول وجہ ہے اور نہ ہی عوامی مفاد میں۔ ایک غیر مقیم، جو پاکستان میں ٹیکس کا ذمہ دار نہیں ہے یا ٹیکس سے مستثنیٰ یا اس سے کم آمدنی والے رہائشی کو جائیداد حاصل کرنے کے لیے ریٹرن فائل کرنے پر مجبور کیوں کیا جانا چاہیے؟ کسی بھی صورت میں، ایف بی آر کو ود ہولڈنگ ٹیکس کے طریقہ کار کے ذریعے ایسی جائیدادوں کی خریداری کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔ اگر خریدار خریداری کے وقت گوشوارہ داخل نہ کرے تو کمشنر ریٹرن اور ویلتھ سٹیٹمنٹ فائل کرنے کے لیے نوٹس جاری کر سکتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 23 میں ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہو سکتی ہے؟

یہ انتہائی شرمناک ہے کہ ایف بی آر نے قابل ٹیکس آمدنی والے افراد کے ریٹرن فائل کرنے سے متعلق دفعات کو نافذ کرنے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے، ایک بار پھر ان لوگوں کو سزا دینے کا انتخاب کیا ہے جو قابل ٹیکس آمدنی نہیں رکھتے اور بڑے پیمانے پر عوام، جو پہلے ہی بہت زیادہ ودہولڈنگ ٹیکس کی دفعات سے پریشان ہیں، مزید مشکلات کا شکار ہوں گے۔

بلاشبہ ایف بی آر کی قابل رحم کارکردگی کے ذمہ دار پاکستانی عوام نہیں ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ایف بی آر اپنے گھر کو ٹھیک کرے اور ٹیکس کے قوانین کو پورے طور پر نافذ کرے، بجائے اس کے کہ پاکستان کے پہلے سے زیادہ ٹیکس دینے والے غریب عوام کو اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہرائے اور امیروں اور طاقتوروں کے تحفظ کا ریکارڈ قائم کرے۔

پارلیمنٹیرینز کو بطور قانون سازوں اور ٹیکس جمع کرنے والوں کو بطور ریاستی اور سرکاری ملازمین کو یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں واجب الادا ٹیکس جمع نہ کرنا اتنا ہی قابل نفرت ہے جتنا کہ اس کی وصولی، جہاں واجب الادا نہیں ہے جیسا کہ CIT کمپنیز، لاہور بمقابلہ اسٹیٹ سیمنٹ آف کارپوریشن2002 PTD 1603 میں بیان کیا گیا ہے۔ عوام کو درپیش ان مسائل کو سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز بمقابلہ ڈپٹی کمشنر ان لینڈ ریونیو وغیرہ (2014) 110 ٹیکس 221 H.C Lah.) میں بھی شاندار طریقے سے ان الفاظ میں اجاگر کیا؛ 'یہ محرومی [پیشگی ٹیکس جمع کرنے کی شرط] کے نتیجے میں محکمے کو غیر منصفانہ طور پر مالا مال اور فائدہ پہنچاتی ہے'۔

مزیدخبریں