اپنی ایک ٹوئیٹ میں مریم نے لکھا کہ احتساب کا بیانیہ اس فیصلے کے بعد اپنی موت آپ مر گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ استعفا منظور کر لیتے تو خود بھی مستعفی ہونا پڑتا، NRO اور کیسے دیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے ہی کو دیا جاتا ہے۔
مریم نواز نے مزید لکھا کہ NRO کے اصل معنی قوم کو سمجھانے کا شکریہ لیکن جواب تو پھر بھی دینا پڑے گا۔ اب لو گے احتساب کا نام؟
یاد رہے کہ عاصم سلیم باجوہ پر احمد نورانی کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے بعد میڈیا اور سیاستدانوں کی طرف سے قریب دو روز تک مسلسل خاموشی رکھی گئی تھی جس کے بعد مریم نواز نے ہی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہونے کے موقع پر اس سکینڈل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا اور اس مطالبے اور سخت بیان کے بعد ہی میڈیا اور اپویشن کی دیگر جماعتوں اور رہنماؤں کو اس حوالے سے بات کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا تھا۔
عاصم سلیم باجوہ نے گذشتہ رات ایک پریس ریلیز میں اپنے خلاف الزامات کا جواب دیا تھا اور بعد ازاں مختلف ٹی وی چینلز پر انٹرویو بھی دیے تھے لیکن ان کے انٹرویوز کے بعد مزید نئے سوالات کھڑے ہو گئے تھے۔ شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں انہوں نے بات کرتے ہوئے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن آج صبح وزیر اعظم عمران خان نے استعفا قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
عاصم سلیم باجوہ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا تھا کہ ان کے خلاف مذموم مقاصد کے تحت ایک مہم چلائی گئی ہے جس کا مقصد ان کی کردار کشی کے علاوہ کچھ نہیں۔ اپنے بیان میں انہوں نے بہت سی کمپنیوں کا حوالہ دیا تھا جو کہ احمد نورانی کی رپورٹ میں پہلی بار سامنے لائی گئی تھیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے زیادہ تر غیر فعال ہیں اور جو چند چل رہی ہیں، ان میں بھی ان کے بچوں کو نقصان کا سامنا رہا ہے۔ صرف ایک کمپنی کے حوالے سے انہوں نے لکھا کہ اس کے کاروبار میں گذشتہ تین سالوں میں کل 5 لاکھ روپے کا منافع ہوا ہے جب کہ اس میں ان کے بیٹے کے حصص صرف 50 فیصد ہیں اور یہ مکمل طور پر اس کمپنی کے ملک نہیں۔
اپنی اہلیہ پر لگے الزامات پر عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ ان کی اہلیہ نے صرف 19 ہزار ڈالر کے قریب سرمایہ کاری کی تھی لیکن وہ سرمایہ بھی انہوں نے اس کاروبار میں سے نکال لیا ہے۔ شاہزیب خانزادہ کی جانب سے جب ان سے سوال ہوا کہ وہ پیسہ اب پاکستان آ چکا ہے یا کہاں ہے تو عاصم باجوہ نے کہا کہ وہ پیسہ پاکستان واپس نہیں آیا ہے، یہ وہیں امریکہ میں ان کے بچوں کو منتقل کر دیا گیا ہے۔ اور بچوں سے متعلق انہوں نے کہا کہ وہ اپنے چچاؤں کے ساتھ رہتے ہیں اور انہی کے کاروبار میں ان کے ساتھ ہیں۔ تاہم، اس سے ایک نیا سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ اگر کاروبار میں پیسہ اب بھی موجود ہے اور صرف شیئر ہولڈر اب کی اہلیہ کی بجائے بیٹے ہیں تو یہ تو خاندان کے اندر ہی اس رقم نے کاروبار میں رہتے ہوئے محض ہاتھ تبدیل کیے ہیں۔
مریم نواز کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر آیا ہے کہ جب اپوزیشن کی جانب سے عاصم باجوہ کے اوپر لگے الزامات کی تحقیقات کے حوالے سے حکومت پر دباؤ بڑھایا جا رہا تھا اور اس دباؤ کا آغاز مریم نواز کے بیانات کے بعد ہی ہوا تھا۔ تاہم، گذشتہ شب عاصم باجوہ کے بیانات کے بعد اپوزیشن کے کچھ رہنماؤں نے کہا تھا کہ یہ اچھی بات ہے کہ انہوں نے ایک جواب دیا ہے اور اگر وہ کسی بھی فورم پر دستاویزات کے ساتھ اسے ثابت کرنے کے لئے راضی ہیں تو یہ خوش آئند عمل ہے۔
عاصم باجوہ کے اس اعلان کے بعد کہ انہوں نے اپنے خاندان سے مشورہ کرنے کے بعد معاونِ خصوصی کی حیثیت سے استعفے کا فیصلہ کیا ہے، سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا جا رہا تھا کہ اگر اس عہدے سے استعفا دے رہے ہیں تو CPECA کے چیئرمین برقرار رہنے کی کیا وجہ ہے؟ یہ سوال ٹوئٹر پر سینیئر صحافی حامد میر کی جانب سے اٹھایا گیا تھا جب کہ اے آر وائے سے تعلق رکھنے والے صحافی اقرار الحسن سید نے بھی ان کے خلاف تحقیقت کا مطالبہ کیا تھا۔
تاہم، صبح وزیر اعظم کی جانب سے استعفا مسترد کیے جانے کے بعد ایک نیا پنڈورا بکس کھل گیا تھا۔ اب مریم نواز کے بیانات نے اس تنقید کو مزید تند و تیز کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ وزیر اعظم نے استعفا مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ عاصم سلیم باجوہ نے جو ثبوت اور وضاحت پیش کی، اس سے مطمئن ہوں۔