ترجمہ: حمزہ ابراہیم
نوٹ: یہ مضمون پروفیسر ڈینس ہرمن کے مقالے کا اردو ترجمہ ہے جو اقساط کی شکل میں پیش کیا جائے گا۔ اصلی نسخے اور حوالہ جات کو دیکھنے کیلئے اس لنک کو کلک کریں:
Akhund Khurasani and the Iranian Constitutional Movement
تعارف
پچھلے دو عشروں میں ایران میں نہایت اہم دستاویزات شائع ہوئی ہیں جو ایران میں آئینی جمہوریت کی تحریک (1906۔ 1911) کے بارے میں علما کے کردار کا تجزیہ کرنے اور اس سلسلے میں مزید تحقیقی کام کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ مغرب میں اس تحریک پر کیے گئے مطالعات کا موضوع یا شیخ فضل الله نوری (متوفی 1909) کا کردار رہا ہے جو آئین کی حکومت کے مخالف تھے یا آیت الله محمّد حسین نائینی کہ جو آئینی جمہوریت کے حامی سمجھے جاتے تھے۔[1] حال ہی میں کی گئی بعض علمی تحقیقات میں ایران میں صوبائی سطح پر علما کے کردار اور شیعہ مسلک میں نسبتاً کم پیروکار رکھنے والے فکری رجحانات مثلاً شیخی یا صوفی شیعوں کے کردار کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے جو اس تحریک میں علما کے کردار کو زیادہ بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔[2] 2006 میں محسن کدیوَر صاحب نے اس زمانے میں اہل تشیع کے مرجع اعلیٰ آیت الله العظمیٰ محمد کاظم خراسانی (متوفی 1911) ، المعروف بہ آخوند خراسانی، کے خطوط اور سیاسی فتاویٰ کو ”سیاست نامہ خراسانی“ کے عنوان سے ایک کتاب کی شکل میں اکٹھا کر کے شائع کیا۔ ان دستاویزات اور ان کے علاوہ آخوند خراسانی کے دوسرے آثار کی مدد سے آئینی جمہوریت کی تحریک پر ان کے نظریات کی چھاپ اور ان کے صحیح کردار کو سمجھنا ممکن ہو گیا ہے۔[3]
آئینی تحریک کے آغاز کے وقت اصولی مجتہد آخوند خراسانی شیعی دنیا کے مرجع اعلیٰ بن چکے تھے، اور تمام مراجع میں سے ان کو سب سے بہتر مجتہد سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت اس طرح کی قیادت کو مرجعیت کے بجائے ریاست دینیہ کہا جاتا تھا۔[4] چنانچہ آخوند خراسانی کو علمائے نجف کا سردار اور اہل تشیع کا روحانی پیشوا (مقام ریاست روحانی شیعہ) کہا جاتا تھا۔[5] دوسرے مراجع میں آیت الله سید محمد کاظم یزدی (متوفی 1919) ، آیت الله عبدالله مازندرانی (متوفی 1912) اور آیت الله مرزا محمد حسین تہرانی (متوفی 1908) شامل تھے۔ سید کاظم یزدی کے فقہ کے دروس معروف تھے۔ ٹیلیگراف اور اخبارات کی ایجاد نے آخوند خراسانی کو وہ پہلا مرجع اعلیٰ بنا دیا کہ جو شیعہ عوام سے بلا واسطہ مخاطب ہو سکتا ہو۔ حقیقت میں تو یہ ٹیلیگراف کی بدولت ہی ممکن ہوا تھا کہ ان کے پیشرو آیت الله العظمیٰ مرزا محمّد حسین شیرازی (متوفی 1894) نے 1891 میں ٹالبوٹ تمباکو کمپنی کے خلاف ایرانی عوام کو کامیابی سے متحرک کیا تھا۔[6] یہ تو ہم جانتے ہیں کہ ایران میں آئینی جمہوریت کی تحریک میں آخوند خراسانی کا کردار اس کومذہبی جواز فراہم کرنا تھا، کیوں کہ وہ کبھی خود عراق کے مقدس شہروں سے اٹھ کر ایران نہیں گئے اور نہ ہی انہوں نے اپنے سیاسی افکار کو ایک کتاب یا پروگرام کی شکل میں لکھا۔[7] محسن کدیور صاحب کی شائع کردہ دستاویزات کا جائزہ لینے سے ان کے موقف کے بنیادی خدوخال واضح ہوتے ہیں۔ یہ دستاویزات بنیادی طور پر اعلامیے ہیں جن میں سے بعض بہت مختصر ہیں اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور انہیں ٹیلیگراف اور دوسرے ذرائع ابلاغ کی مدد سے ایران اور عراق میں بڑے پیمانے پر نشر کیا گیا۔ تاہم، ہمیں یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ یہ دستاویزات مکمل نہیں ہیں اور آخوند خراسانی سے منسوب بعض چیزیں دوسری جگہوں پر ملتی ہیں جن کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔
آخوند خراسانی کی حیات و خدمات اور آئینی جمہوریت کی تحریک کی نظریاتی تشکیل کرنے والے افکار کا جائزہ پیش کرنے کے بعد میں ان کے بارے میں شائع شدہ مواد میں موجود بنیادی تصورات کا ایک جائزہ پیش کروں گا۔ میری توجہ ان کے اعتدال پسند آئینی موقف، جدت پسندی اور بلند نگاہی کی سیاست، مغربی دنیا کے ساتھ پیچیدہ تعلقات اور قاجار بادشاہ سے معاملات کو سمجھنے پر ہو گی۔ چونکہ عراق میں رہتے ہوئے آخوند خراسانی نے ایران کی عملی سیاست کے اتار چڑھاؤ سے خود کو دور رکھا تھا، اس عمل نے ان کو جمہوری تحریک کے اکثر کرداروں کے لئے روحانی باپ کا درجہ دے دیا تھا۔ ان کے اس کردار کے پیش نظر میں ان کے مواضع کا دوسرے آئین نواز علما اور خاص طور پر آیت اللہ شیخ اسماعیل محلاتی (متوفی 1924) اورثقۃ الاسلام تبریزی (متوفی 1911) سے تقابل بھی پیش کروں گا جو ان کے نظریاتی پیرو تھے۔ آیت اللہ اسماعیل محلاتی ایک پر نفوذ عالم دین تھے جو نجف میں ہی مقیم تھے اور جیسا کہ آگے جا کر پتا چلے گا، انہوں نے اپنے سیاسی نظریات کو کتابی شکل میں بھی پیش کیا۔[8] ثقۃ الاسلام تبریزی ایران کے شہر تبریز میں شیخی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی ایک متحرک اصلاح پسند اور جمہوری شخصیت تھے اور انہوں نے سیاست کے موضوع پر متعدد کتابچے لکھے۔
آخوند خراسانی کی حیات و آثار
آخوند خراسانی 1839 میں ایران کے شہر مشہد میں ہرات سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کے ہاں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اسی شہر میں حاصل کی اور شادی کے بعد 1860 میں سبزوار چلے گئے جہاں انہوں نے ملا ہادی سبزواری (متوفی 1873) سے قدیم فلسفے کی تعلیم حاصل کی۔ 1862 میں وہ کچھ عرصہ تہران میں ملا حسین خوئی کے ہاں گزارنے کے بعد نجف چلے گئے، جہاں انہیں آیت الله العظمیٰ شیخ مرتضیٰ انصاری (متوفی 1864) کے درس میں شرکت کا موقعہ ملا۔ اس کے بعد انہوں نے آیت الله العظمیٰ سید مرزا محمّد حسین شیرازی کے درس میں شریک ہونا شروع کر دیا اور یہ سلسلہ 1874 میں مرزا شیرازی کے سامرا منتقل ہونے تک جاری رہا۔ اس کے بعد انہوں نے نجف میں درس دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کا اصول فقہ کا درس کافی مشہور ہوا اور 1894 میں مرزا شیرازی کی وفات کے بعد وہ سب سے بڑے مرجع کے طور پر ابھرے۔[9] آخوند خراسانی نے 20 دسمبر 1911 کو سکتہ مغزی (stroke) سے وفات پائی۔ اس وقت روس نے ایران پر حملہ کر دیا تھا اور تبریز، مشہد اور تہران پر قبضہ ہو چکا تھا، اس کے نتیجے میں 24 دسمبر 1911 کوپارلیمان تحلیل ہو گئی۔ اس صورت حال میں آخوند خراسانی نجف سے تہران جا رہے تھے کہ راستے میں وفات پا گئے۔
آخوند خراسانی کا سب سے اہم علمی کام فلسفہَ شریعت پر ان کی کتاب کفایۃ الاصول ہے جو آج تک شیعہ مدارس میں اصول فقہ کی سب سے اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔[10] اس کتاب پر کئی شیعہ مجتہدین نے شرحیں لکھی ہیں جن میں آیت اللہ العظمیٰ ابو القاسم خوئی کی شرح خاص اہمیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کے مطالب کا شیخ مرتضیٰ انصاری کے نظریات سے تقابل کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب آخوند خراسانی کی مستمر شہرت کی بنیادی وجہ بنی ہے، اور اسی وجہ سے محسن کدیور نے سیاست نامۂ خراسانی کے سر ورق پر ان کے نام کے آگے ”صاحبِ کفایہ“ لکھا ہے۔ اصول فقہ میں آخوند خراسانی کے نظریات اس قدر پختہ ہیں کہ آج بھی حوزہ علمیہ کی بنیاد اس کتاب پر قائم ہے۔
آخوند خراسانی اکثر شیعہ مراجع تقلید کی دنیاوی معاملات میں احتیاط کی سیاست کا مجسم نمونہ ہیں اور اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ وہ کبھی ایران نہیں آنا چاہتے تھے لیکن جب کبھی انہوں نے دیکھا کہ ”حسبیہ“ یعنی اخلاقی نظم کو خطرہ لاحق ہے تو ایسے نازک مواقع پر سیاسی منظر نامے پر ظاہر ہوئے۔ چنانچہ 1899 میں انہوں نے ”شرکتِ اسلامی“ نامی تجارتی کمپنی کی حمایت کی۔ یہ ایک جدید طرز کی کپڑے کی کمپنی تھی جس کی بنیاد اصفہان کے ایک امیر تاجر حاج کازرونی (متوفی 1931) نے 1898 میں شہر کے متعدد علما کی حمایت سے رکھی تھی۔ شرکت اسلامی کا طریقہ کار، اس کا مقصد اور اہداف ایک دستور العمل کی شکل میں لکھے گئے تھے۔ اس کا ہدف تمام ایرانی تاجروں کو ایک چیمبر آف کامرس میں اکٹھا کرنا تھا تاکہ ایران میں مغربی تجارتی اداروں کے اثر و نفوذ کا مقابلہ کیا جا سکے۔ حاج کازرونی نے اپنے کام کا آغاز تاجروں کو اس بات کی طرف دعوت دینے سے کیا کہ وہ عوام میں درآمد شدہ کپڑے کے استعمال کے خلاف تشہیری مہم چلائیں۔ اس زمانے میں برطانیہ میں تیار ہونے والا کپڑا ایران میں بہت پسند کیا جاتا تھا۔ اگلے مرحلے میں شرکت اسلامی نے ایران کے بڑے تاجروں کو اس بات کی طرف مائل کرنا تھا کہ وہ استعمال کی چیزیں تیار کرنے کے جدید کارخانے لگائیں تاکہ مغرب پر انحصار کم کیا جا سکے۔ اس کمپنی نے جلد ہی اپنی شاخیں تبریز اور تہران میں بھی کھول لیں، لیکن 1903 میں دیوالیہ ہو گئی۔[11] اس منصوبے کیلئے اپنی حمایت کی تشہیر کیلئے آخوند خراسانی نے قاہرہ سے چھپنے والے اخبار ”ثوریہ“ سے بھی مدد لی۔[12] 1902 سے 1904 کے سالوں میں انہوں نے عتبات کے دوسرے علما کے ہمراہ ایران کے شاہی دربار کی فضول خرچی، دربار کے بعض ارکان کی طرف سے سرکاری جائیداد کے غبن اور روس کے بڑھتے ہوئے قرضوں کے خلاف کئی خطوط روانہ کئے اور بعض وزرا کو خیانت کا مرتکب قرار دیا۔[13] انہوں نے بڑھتی ہوئی معاشی مراعات پر اعتراض کرنے کے علاوہ جوزف ناؤس پر بھی تنقید کی جو بیلجیم کا ایک سفارتکار تھا اور اسے بادشاہ کی طرف سے ایران کے کسٹمز اور ڈاک کے نظام کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، اگرچہ اس کی تجویز کردہ اصلاحات بعد میں مفید ثابت ہوئیں۔[14، 15]خط و کتابت کا یہ سلسلہ 1903 میں عین الدولہ کے وزیر اعظم بنائے جانے کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی تناؤ کے دوران چلا۔[16] اس زمانے میں مختلف گروہوں میں ایک طرح کا سیاسی اتحاد ابھرنے لگا تھا جن میں تاجر، دکان دار، مفکرین اور علما شامل تھے۔ البتہ آخوند خراسانی نے گاہے بگاہے بادشاہ مظفر الدین شاہ قاجار (متوفی 1907) پر اپنے اعتماد کا اظہار بھی کیا۔[17]
نجف کے باقی ایرانی علما کی طرح، جن میں ان کے شاگرد آیت الله محمّد حسین نائینی نمایاں تھے، آخوند خراسانی عراق کے سیاسی حالات کو بھی مدِ نظر رکھتے تھے۔ بعض اوقات ان کے خطوط اور مضامین عراق یا مصر میں شائع ہونے کے بعد ایران میں پہنچتے تھے۔ انہوں نے کئی ایک مدرسے بھی قائم کئے اور کچھ جدید سکول بھی بنائے، نیز کربلا میں ایک عوامی کتب خانہ قائم کیا۔ عراق میں انہیں ابو الاحرار (آزادی خواہوں کا سرپرست) کہا جاتا تھا لیکن آئینی تحریک کی مسلسل حمایت کی وجہ سے نجف میں آیت الله سید کاظم یزدی کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جو عتبات میں شیخ فضل الله نوری کے جزوی حمایتی تھے۔ آیت الله یزدی، جو فقہ کی ایک اہم کتاب العروۃ الوثقیٰ کے مؤلف بھی ہیں، نجف کے بڑے فقہا میں سے تھے۔ اپنے کچھ مریدوں، جیسے سید اکبر شاہ وغیرہ، اور جرائم پیشہ افراد جیسے زوکرت گینگ اور شومورت گینگ کی مدد سے انہوں نے 1907 میں آخوند خراسانی کا نجف میں جینا مشکل کر دیا۔[18] اگرچہ وہ آخوند خراسانی کو خاموش تو نہ کرا سکے لیکن انہوں نے نجف میں ان کے اثر و رسوخ کو نقصان پہنچایا، بالخصوص اس وقت جب 1908 میں بادشاہ نے ایران کی نوزائیدہ پارلیمنٹ پر بمباری کرائی اور جب آئین مخالف گروہوں کی مدد سے وہ تہران پر قابض ہوا تو 23 جون 1908 میں اس نے پارلیمان کو بند کر دیا۔[19]اس زمانے میں بہت سے لوگ موت کے خوف سے آخوند خراسانی کا ساتھ دینے سے ڈرتے تھے۔ آیت الله نائینی نے آیت الله کاظم یزدی کے ساتھیوں کو استبداد کی مذہبی شاخ قرار دیا ہے۔[20] ان مصائب کے باوجود آخوند خراسانی کو صف اول کے دوسرے مراجع، جیسے آیت الله عبداللہ مازندرانی اور آیت الله مرزا محمّد حسین تہرانی کے ساتھ ساتھ آیت اللہ اسماعیل محلاتی، آیت الله محمّد حسین نائینی اور شیخ مہدی مازندرانی کی حمایت حاصل رہی۔ ان کے اصول فقہ کے درس میں طلاب کی شرکت بہت زیادہ رہی اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب حالات تھوڑے بہتر ہوتے تھے تو اکثر طلاب آخوند خراسانی کی حمایت بھی کیا کرتے تھے۔ آخوند خراسانی کے اکثر بیانات پر دوسرے مراجع آیت الله عبد الله مازندرانی اور آیت الله مرزا حسین تہرانی کے تائیدی دستخط موجود ہیں۔ بہت سے دوسرے علما، جو علمی اعتبار سے مراجع سے کم تھے، نے بھی آیت الله یزدی اور آخوند خراسانی میں اختلاف ختم کرنے کی کوشش کی مگر بے سود رہی۔[21] یہاں تک کہ دوسری پارلیمان کے خاتمے کے ایام میں، جب ایرانی جمہوریت کو آذربائیجان اور خراسان میں پیش قدمی کرتی ہوئی روسی افواج سے خطرہ تھا، ایرانی عوام کو جہاد کی دعوت دینے کیلئے آیت الله یزدی نے باقی مراجع کے فتوے پر دستخط کرنے کے بجائے الگ سے فتویٰ دیا۔[22] (عرض مترجم: البتہ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ آیت الله کاظم یزدی سماجی حالات سے دور گوشہ نشینی کی زندگی گذارتے تھے اور جب پارلیمنٹ نے آئین بنا کر منظوری کیلئے نجف بھیجا تو انہوں نے بھی باقی مراجع کے ساتھ آئین کو پڑھا تو اس میں کچھ جزوی تبدیلیوں کے بعد تائیدی دستخط کر دیئے۔ جس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ شیخ فضل الله نوری کے برعکس وہ جمہوریت کو کفر نہیں سمجھتے تھے اور ان کی طرف سے آخوند خراسانی کی مخالفت کی وجہ شیخ فضل الله نوری کا وہ پروپیگنڈا تھا جس میں لڑکیوں کے لئے سکولوں کی تعمیر کو قحبہ خانے بنانے کا منصوبہ کہنے جیسے جھوٹ شامل تھے۔ )
آخوند خراسانی کے نزدیک آئینی جمہوریت کا تصور
جیسا کہ حائری اور مارٹن نے ذکر کیا ہے، یقینی طور پر سید محمّد طباطبائی(متوفی 1918) کے سوا کسی آئین کے حامی مجتہد نے جدید آئینی ریاست کی تحریک کا واضح فہم پیش نہیں کیا، اور اس سے آخوند خراسانی بھی مستثنیٰ نہیں۔[23] جب ایران میں جمہوری تحریک شروع ہوئی تو آئین پر قائم ریاست، جسے ان دنوں ایران میں ”مشروطہ“ کہا جاتا تھا، کی تعریف میں ابہام تھا۔ سید محمّد طباطبائی، جو تحریکِ جمہوریت کے نمائندےاور قائد تھے، کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ علما کے ہاں آئین پسندی کا تصور ابھی اتنا واضح نہیں ہے۔ انہوں نے کہا:
”ہم نے آج تک آئین کی حکومت کا تجربہ نہیں کیا ہے، لیکن ہم نے ایسی دوسری حکومتوں کے بارے میں سنا ہے، اور وہ لوگ جو ایسے ممالک میں گئے ہیں جہاں سب کیلئے یکساں مدون شدہ قانون کی حکومت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایسی حکومت ہمارے ملک میں امن و امان اور خوشحالی لائے گی۔ اس بات نے ہمارے اندر جوش و جذبہ پیدا کر دیا ہے اور ہم اپنے ملک میں آئین کی حکومت قائم کرنے کیلئے نکل پڑے ہیں۔ “ [24]
تبریز سے تعلق رکھنے والے آئینی جمہوریت کی تحریک کے ایک اور حامی، شیخی شیعہ عالم ثقۃالاسلام تبریزی، نے اپنی تحریروں میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ انہوں نے شہر کی مسجدوں اور انجمن ملی کے ہاں خطاب کرنے کے سلسلے کو بڑھا دیا ہے تاکہ وہ عوام کو آئینی جمہوریت کا معنی سمجھا سکیں۔[25] اس کے نتیجے میں دوسری صف کے علما اور اہل فکر جمہوری تحریک میں شامل ہونے لگے۔
آخوند خراسانی نے آئینی جمہوریت کے بارے کوئی رسالہ یا منشور لکھنے سے گریز کیا، لیکن انہوں نے اپنے شاگردِ خاص آیت الله نائینی کی کتاب ”تنبیہ الامہ و تنزیہ الملہ“ کی تائید کی۔[26] آیت الله نائینی سیاست کے میدان میں کافی متحرک تھے اور آیت الله العظمیٰ مرزا حسن شیرازی کے نزدیک ہونے کی وجہ سے انہوں نے تمباکو بیچنے والی برطانوی کمپنی ٹالبوٹ کو خاص رعایت ملنے کے خلاف چلائی گئی مہم میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ 1898 سے وہ آخوند خراسانی کے قریبی افراد میں سے تھے۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ آخوند خراسانی کوئی فتویٰ یا بیان دینے سے پہلے آیت الله نائینی سے مشورہ کیا کرتے تھے۔[27]اپریل 1909 کی ایک مختصر تحریر میں آخوند خراسانی نے تنبیہ الامہ وتنزیہ الملہ کو رسالہٴشریفہ کہا ہے اور اس تحریر کو آیت الله نائینی نے کتاب کے مقدمے میں نقل کیا ہے۔[28] تاہم لگتا ہے کہ آخوند خراسانی نے آیت اللہ اسماعیل محلاتی کی کتاب ”اللیالی المربوطہ فی وجوب المشروطہ“کے لکھنے میں زیادہ اہم کردار ادا کیا جو اس سے ایک سال پہلے 1908 میں لکھی گئی۔[29] محرم 1909 میں آیت الله محلاتی نے آخوند خراسانی کے کہنے پر ایک اور کتابچہ بعنوان ”مراد از سلطنتِ مشروطہ“ لکھا۔[30]ان دو علما کے آخوند خراسانی سے قریبی تعلق کا پتا جولائی 1910 کے اس خط سے بھی چلتا ہے کہ جس میں آخوند خراسانی اور آیت الله عبدالله مازندرانی پارلیمنٹ میں اپنے نمائندوں کے طور پر آیت الله نائینی اور آیت الله محلاتی کے نام تجویز کرتے ہیں۔[31] حائری نے ان دونوں حضرات کو آخوند خراسانی کی فکر کا امین کہا ہے۔[32]
اپنی کتابوں میں آیت الله نائینی اور آیت الله محلاتی نے بڑی وضاحت کے ساتھ پارلیمان کی حمایت کی، اگرچہ ان کے طرزِ استدلال میں باریک فرق پایا جاتا ہے۔ میری رائے میں آخوند خراسانی کے آثار سے جو پیغام ملتا ہے وہ آیت الله محلاتی کے نظریات کے زیادہ قریب ہے۔ ان دونوں کے نزدیک صرف امامِ معصومؑ کی قیادت میں بننے والی حکومت ہی شرعی کہلا سکتی ہے اور وہی حکومت دینی اعتبار سے جائز ہے۔ تحریک جمہوریت کے اعتدال پسند علما، جیسے روح الله نجفی اصفہانی اور ثقۃ الاسلام تبریزی، نے بھی یہی موقف اپنایا۔[33]انہوں نے کہا:
”ایران کی بری و بحری حدود کی حفاظت اور موجودہ بادشاہت کا دفاع شرعی ذمہ داری نہیں ہے۔ آئینی جمہوریت کیلئے ہماری حمایت دراصل اسلام کے جوہر کا تحفظ کرنا ہے۔ “[34]
یہاں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں حضرات کیلئے شرعی حکومت زمان و مکان سے آزاد ہوتی ہے۔
البتہ آخوند خراسانی اور آیت الله شیخ اسماعیل محلاتی کی تحریروں اور آثار میں اس قسم کے اعتقادی نوعیت کے سوالات کو محور نہیں بنایا گیا ہے۔[35] آیت الله حسین نائینی کی کتاب میں البتہ امام مہدیؑ کی غیبت کے زمانے میں حکومت کی مختلف ممکنہ شکلوں کی شرعی حیثیت پر نسبتاً زیادہ تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بحث کی گئی ہے۔ وہ متعدد صفحات میں دو قسم کی حکومتوں میں فرق واضح کرتے ہیں: ایک طرف ظالمانہ بادشاہت اور دوسری طرف مشروط، محدود اور آئین کی پابند حکومت۔[36]اس بنیاد پر آگے چل کر وہ علما کو بھی دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں: ایک وہ جو ظلم کی مخالفت کو مذہبی فرض سمجھتے ہیں اور دوسرے جو ان کے مخالفین ہیں اور ایسے علما کا مقابلہ کرنا چاہئیے۔[37] ایسی صورت میں سیاست سے لا تعلق رہنا ممکن نہیں ہوتا۔ آیت الله نائینی کے مطابق ظلم کی تین بڑی اقسام ہیں: خدا کے حق میں ظلم، امام زمانؑ کے حق میں ظلم اور عوام کے حق میں ظلم۔ غیبتِ امامؑ میں ایک آئینی جمہوریت جسے عادل فقہا کی حمایت حاصل ہو وہ عوام پر ہونے والے ظلم کو روک سکتی ہے۔ آگے چل کر وہ بادشاہ کے کردار کو محدود کر کے متولی تک لے آتے ہیں، جو اپنے فیصلوں میں علما سے تائید لینے کا پابند ہو گا۔[38] شاید آیت الله نائینی کیلئے اس وقت کے آئین کے آرٹیکل 35 کی یہی تشریح تھی جس کے مطابق بادشاہت عوام کی امانت ہے جو انہوں نے بادشاہ کی ذات پر اعتماد کی شکل میں اسے دی ہے۔
آخوند خراسانی اور آیت الله اسماعیل محلاتی کے مطابق غیر مذہبی حکومتیں دو قسم کی ہو سکتی ہیں: عادل اور ظالم۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ظلم کو دبانے اور عدل و انصاف کو قائم کرنے کیلئے کوشش کریں تاکہ اسلام کی بنیادوں کا تحفظ ہو سکے جو مغرب کے بڑھتے قدموں سے خطرے میں تھا۔ پس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا قرآنی اصول مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔[39] چونکہ جمہوریت کی تحریک کا مقصد عدل و انصاف کو قائم کرنا ہے لہذا اس کی مخالفت امام زمانؑ سے جنگ کے مترادف ہے، [40] اور گویا یزید کی حمایت کرنا ہے۔[41] آخوند خراسانی اور آیت الله محلاتی کے نزدیک قاجار سلطنت کے طور طریقے نا قابل برداشت تھے، خصوصاً جب سے محمّد علی شاہ قاجار (متوفی 1925) تخت نشین ہوا تھا۔
جب اسلام کی بنیادوں کے تحفظ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور آئینی جمہوریت کی مخالفت کو امام زمانؑ سے جنگ کہا جانے لگا تو یہ مفاہیم نجف کے تینوں بڑے مراجع آخوند خراسانی، آیت الله مازندرانی اور آیت الله حسین تہرانی کے مشترکہ اعلامیوں میں جمہوریت کے دفاع میں بار بار ذکر کئے جانےلگے۔
اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ آیت الله نائینی نے اپنی کتاب میں قرآن و حدیث کے مفصل حوالے دئیے تھے۔ آخوند خراسانی اور آیت الله اسماعیل محلاتی نے آئینی جمہوریت کی مشروعیت کی بحث کرنے کے بجائے قوم کی اصلاح، تعلیمی نظام، فوج اور مالیات کو بہتر بنانے پر توجہ دی۔ آخوند خراسانی اور آیت الله محلاتی آئینی جمہوریت کے اسلام کے عین مطابق ہونے کو بدیہی اور آشکار حقیقت سمجھتے تھے کیوں کہ انہیں یقین تھا کہ صرف ایک جمہوری سیاسی عمل ہی مسلم دنیا میں حقوق کے تحفظ اور عدل و انصاف کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے اور اس کو داخلی طور پر مضبوط کر سکتا ہے۔ اپنی کتاب لیالی المربوطہ فی وجوب المشروطہ کے پہلے حصے میں آیت الله محلاتی آئین کی پابند حکومت اور آمریت میں فرق کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں: وہ چیزیں جواچھی حکومت کیلئے لازم ہیں جیسے بجٹ میں قوم کی آمدنی اور اخراجات کا صحیح حساب رکھنا، زمانے کے تقاضوں کے مطابق ایک تربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے لیس فوج بنانا، قومی معیشت کو ترقی یافتہ بنانا، اور بیرون ملک رہنے والے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا، وغیرہ۔ وہ اس بات کا اضافہ بھی کرتے ہیں کہ یہ شرائط اسلام کی تعلیمات تک محدود نہیں ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں جو ان کو بھیجا گیا تھا، آیت الله اسماعیل محلاتی فرماتے ہیں کہ حکومتیں، چاہے وہ مسلمانوں کی ہوں یا دوسروں کی، ان میں فرق ان کے آئین کی بنیاد پر ہی کیا جا سکتا ہے:
”یہ دو لفظ ’آئینی‘ اور ’آمرانہ‘ محض اسم صفت ہیں جو حکومت کی مختلف اقسام کو بیان کرتے ہیں۔ اگر حکمران تمام اختیارات اپنی ذات میں اکٹھے کر لے تو اس کی حکومت آمرانہ ہے۔ دوسری طرف اگر حکمران کے اختیارات عوام کی طرف سے محدود کئے گئے ہوں تو یہ آئین کی حکومت ہے۔ اس تفریق کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کسی قوم کے شہریوں کا جو بھی مذہب ہو، چاہے وہ موحد ہوں یا مشرک، مسلمان یا کافر، ان کی حکومت یا تو آمرانہ ہو سکتی ہے یا آئین کی پابند!“[42]
اس زاویئے سے دیکھا جائے تو آخوند خراسانی اور آیت الله محلاتی کا موقف اس دور کے بعض اصلاح پسند سنی علما کے موقف کے نزدیک معلوم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم مولانا خیر الدین التونسی (متوفی 1881) کا ذکر کر سکتے ہیں جو اپنی کتاب ”اقوم المسالک فی معرفۃ احوال الممالک“ میں لکھتے ہیں:
”بنیادی ضرورت اچھی حکومت ہے جس کے نتیجے میں امن، امید اور کام میں وہ مہارت پیدا ہوتی ہے جو یورپی ممالک میں نظر آتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ یورپ نے یہ مقاصد اور علمی پیشرفت اور صنعت اچھے نظم و نسق سے حاصل کئے جس کی بنیاد انصاف پر مبنی سیاسی نظام پر ہے۔ ۔ ۔ ۔ خدا کا یہ قانون اس کے کلام میں آیا ہے کہ انصاف، اچھی مدیریت اورایسا انتظامی ڈھانچہ جس کی سب پابندی کرتے ہوں، دولت، آبادی اور جائیداد کی ترقی کا سبب بنتا ہے۔ “[43]
چنانچہ آئینی جمہوریت آخوند خراسانی اور آیت الله محلاتی کیلئے سب سے بڑھ کر ایک فلاحی حکومت ہے۔ لہٰذا وہ پارلیمانی نظام کے اسلامی جواز اور اس کے طریقہ کار پر چند سطروں سے زیادہ کچھ نہیں لکھتے۔ وہ نہ تو شوریٰ کی بحث میں پڑتے ہیں نہ ہی مقننہ کے وجود اور اسکے ڈھانچے پر کوئی رائے دیتے ہیں۔[44] البتہ دوسرے آئین پسند علما کیلئے یہ واضح تھا کہ مقننہ اور پارلیمنٹ ایک نئے ایران کی تعمیر کریں گے۔ ایک آئین پسند عالم شیخ عبد الرسول مدنی کاشانی کی ایک تحریر کے کچھ جملے صراحت سے یہ بات بیان کرتے ہیں:
”مقننہ کلی قوانین طے کرے گی، عدلیہ ان کی روشنی میں جزئیات کی تشریح کرے گی اور انتظامیہ ان کو نافذ کرے گی۔ “ [45]
آخوند خراسانی اور آیت الله محلاتی کے لئے سب سے اہم بات یہ تھی کہ علما اس ناگزیر تحریک کا ساتھ دیں تاکہ آئین اسلامی احکام کے مطابق بن سکے۔ وہ جب اپنے مثالی سیاسی ہدف کا ذکر کرتے تو اس کیلئے ” جمہور مسلمین“ کی اصطلاح استعمال کرتے [46] اور اس طرح آیت الله نائینی کے برعکس علما اور مجتہدین کو سیاست میں باقی عوام سے بالا تر کوئی مقام دینے کے قائل نہیں تھے۔ اس معاملے میں آخوند خراسانی اجتماعی دانش کو فرد کی ذاتی زندگی کے معاملات سے الگ کر کے دیکھتے ہیں کہ جن میں مجتہد اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود آخوند خراسانی نے آئینی جمہوریت پر کوئی مستقل کتابچہ لکھنے سے گریز کیا اور اس اصول کا ذکر اپنے بیانات میں اختصار کے ساتھ کیا۔ وہ وقت کے دھارے کے ساتھ چلتے اور پارلیمنٹ کے لئے اپنی حمایت کا اظہار صرف حفظ بنیاد اسلام اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے حوالے سے کرتے تھے۔
آخوند خراسانی بطور مرکز اتفاق و اعتدال
آخوند خراسانی کے متعدد خطوط اور بیانات کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کے معتدل اور مفاہمتی لب و لہجے کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ لب و لہجہ اس وقت بھی قائم رہتا ہے جب پارلیمان کو پہلی بار توڑا گیا اور اس وقت بھی جب اسے دوسرے بار توڑے جانے کا خطرہ منڈلا رہا تھا۔ اگرچہ ان مواقع پر دوسرے جمہوریت خواہ علما، جیسے عبد الحسین لاری اور عماد العلما خلخالی نے تند و تیز زبان استعمال کی۔[47] ہم ایسے کئی مواقع کی نشاندہی کر سکتے ہیں جہاں آخوند خراسانی نے نہایت محتاط اور معقول رویہ اختیار کیا۔
مثال کے طور پر 1906 میں جب آخوند خراسانی سے سوال کیا گیا کہ کفار سے مال خریدنا کیسا ہے تو انہوں نے اس شرط کے ساتھ اس کو جائز قرار دیا جب وہ مسلمانوں کے مقابلے میں ان کی طاقت میں اضافے کا سبب نہ ہو۔ ان کی تحریروں میں ”حرام“ اور ”کفار“ جیسے الفاظ بہت کم ملتے ہیں۔[48] یہ بھی قابل غور ہے کہ انہوں نے حتیٰ شیخ فضل الله نوری کے بارے بات کرتے ہوئے بھی تہذیب کا دامن نہ چھوڑا۔ انہیں امید تھی کہ وہ شیخ نوری کو آئینی جمہوریت کی مخالفت سے باز رکھ سکیں گے۔ شیخ علی مدرس کے نام خط میں انہوں نے کہا:
ترجمہ: ”شیخ فضل الله نوری صاحب کیلئے ایک دوستانہ نصیحت اور ان کے لئے معافی کی سفارش
بسم الله الرحمن الرحیم۔ آپ کا خط ملا اور یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ کا حال اچھا ہے اور آپ کیلئے دل سے دعا نکلی۔ تہران کے حالات کے بارے میں جو کچھ آپ نے میرے نام اپنے خط میں کہا اور جو خطوط آپ نے دوسرے احباب کو لکھے، ان کا میں نے بغور مطالعہ کیا ہے۔
شیخ نوری نے جو سب سے الگ راستہ اختیار کیا ہے وہ بے محل ہے اور علما کیلئے صدمے کا باعث بنا ہے اور اس نے لوگوں کو بدتمیز بنا دیا ہے۔ وہ آبرو کھو چکے ہیں، اس حد تک کہ تہران کے عوام ان کو بہت برا بھلا کہہ رہے ہیں اور میرےاور باقی مراجع کے پاس دوسرے شہروں سے آنے والے خطوط میں بھی ان کے بارے ایسی ہی باتیں لکھی ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ ان کے بارے میں کوئی اقدام اٹھایا جائے تاکہ علما کی آبرو محفوظ رہے اور عوام کے جذبات ٹھنڈے ہوں۔ میں نے ان کے نام پہلے بھی کچھ دوستانہ نصائح روانہ کئے اور دوسروں نے بھی، اگرچہ انہوں نے تہدید اور سرزنش سے بھی کام لیا۔ امید ہے کہ وہ نادم ہوں گے اور دوبارہ ہم سے آ ملیں گے اور اپنے مقام و مرتبے کو محفوظ رکھیں گے۔
میرے خیال میں لازم ہے کہ علما اور پارلیمان کے اراکین ان کے بارے میں چشم پوشی سے کام لیں اور ان کو اور ان کے ساتھیوں کو نرمی سے سمجھائیں، ایسا نہ ہو کہ انہیں مزید دور کر دیں۔ خدا ان کے گناہوں کو معاف کرے۔ ان حالات میں جس قدر ممکن ہو مفاہمت کی کوشش کرنا بہتر ہے۔ خدا کرے یہ مسئلہ جلد حل ہو۔ یہ معاملہ جتنا طول پکڑے گا اس قسم کا نفاق بڑھتا جائے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ علما اور پارلیمنٹ اس مسئلے کے حل اور مقاصد کے حصول کیلئے ہمت سے کام لیں اور امام زمانؑ، کہ ہماری جانیں ان پر فدا ہوں، سے مدد و نصرت چاہیں۔ اس ناچیز نے بھی جہاں ذمہ داری محسوس کی، کوتاہی نہیں کی اور انشااللہ بعد میں بھی اپنی ذمہ داری سے گریز نہیں کروں گا۔ خدا آسانیاں پیدا کرے۔
بندہٴ حقیر
محمد کاظم خراسانی “ [49]
البتہ بعد ازاں فروری 1908 میں، انہوں نے شیخ فضل الله نوری کے اقدامات کو فساد اور حرام سے تعبیر کیا اور کچھ ہفتے بعد اس کو تہران سے نکال دینے کا حکم صادر فرمایا۔ انہوں نےمجتہدین سید محمد طباطبائی اور سید عبد الله بہبہانی کے استفسار پر کہا:
”چون نوری مخل آسائش و مفسد است، تصرفش در امور حرام است.“ [50]
ترجمہ:” نوری چونکہ فساد اور تکلیف کا موجب بنا ہوا ہے لہذا اس کا خمس استعمال کرنا حرام ہے۔ “
جب سید محمد طباطبائی اور سید عبدالله بہبہانی نے خط لکھا کہ نوری نے شاہ عبد العظیم کے مزار میں دھرنا دے دیا ہے اور وہاں سے علما اور جمہوریت پسندوں کے قتل عام کا فتویٰ دے کر اوباشوں کو قتل و غارت گری کی دعوت دے رہا ہے، تو آخوند خراسانی اور باقی دو مراجع نےلکھ بھیجا کہ:
”رفع اغتشاشات حادثہ و تبعید نوری را عاجلاً اعلام. “[51]
ترجمہ: ”فسادات پر جلد قابو پا کر نوری کو شہر بدر کر دیا جائے۔ “
اگرچہ نوری نے اپنے غنڈوں کی مدد سے اگست 1908 میں نجف میں آخوند خراسانی اور ان کے ساتھیوں کو تنہا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن آخوند خراسانی نے 31جولائی 1909 کو نوری کو سزائے موت سے بچانے کی کوشش کی، جو ناکام ہوئی۔[52]یہ ایسے وقت میں کیا جا رہا تھا جب ایرانی صوبے سیستان سے تعلق رکھنےو الے نوری گروپ کے مولوی علی (متوفی 1922) نے یہ فتویٰ دے دیا تھا کہ آئینی جمہوریت کی حمایت کرنے والا شخص مرجع نہیں ہو سکتا۔[53] جمہوری تحریک کے خلاف مولوی علی کے فتوے کا متن اور لہجہ بہت افراطی ہے:
”جمہوری حکومت کافر ہے اور اس کے حامی مرتد ہو گئے ہیں۔ ان کا مال لوٹنا اور ان کو قتل کرنا شرعاً جائز ہے۔ “[54]
دوسری پارلیمنٹ قائم ہونے کے بعد پارلیمنٹ کے سپیکر سید حسن تقی زادہ (متوفی 1970) کی انتہا پسندانہ روش [55] کے مقابلے میں آخوند خراسانی کا لہجہ نرم ہے، حتیٰ کہ اس کو مفسد کہتے ہوئے بھی تکفیر نہیں کرتے اور صرف عہدے سے معزولی کا مطالبہ کرتے ہیں۔[56] تقی زادہ کی جماعت، فرقہ دموکرات ایران، مجتہد سید عبدالله بہبہانی کی 15 جولائی 1910کو شہادت میں ملوث سمجھی جاتی تھی۔
یہاں تک کہ آخوند خراسانی کے پارلیمنٹ کے حق میں لکھے گئے خطوط اور پارلیمنٹ قائم ہونے کے بعد بھیجے گئےمبارک باد کے پیغامات میں بھی تعادل ہے۔ وہ پارلیمنٹ کو ’مجلس محترم ملی‘ یا ’مجلس شورائے ملی‘ کہتے ہیں، اگرچہ بہت سے لوگ ’مجلس مقدس‘ کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔[57] مزید یہ کہ ان کی سفارشات ہمیشہ فصیح و بلیغ ہوتی تھیں۔ یہ خط اس کی ایک اچھی مثال ہے جو 19اکتوبر 1908 کو لکھا گیا:
”مکرر نوشتہ شدہ است کہ مجلس محترم ملی کہ اساسش بہ جہت رفع تعدیات استبداد و اعانہٴ مظلومین است، اعانت و ہمراہی از آن بر ہمہ لازم است و مخل و مفسد و موہن بہ مخالفت آن مخالف و محاد با امام عصر عجل الله فرجہ است، اعاذالله بلادہ و عبادہ.
حررّہ الاحقر الجانی محمد کاظم الخراسانی “
ترجمہ: ”جیسا کہ بارہا لکھا جا چکا ہے کہ قابل احترام پارلیمان کہ جس کی بنیاد آمریت کے ظلم کو ختم کرنے اور مظلوم لوگوں کی مدد کیلئے رکھی گئی ہے، اس کی مدد کرنا اور ساتھ دینا سب پر لازم ہے اور اس میں خلل ڈالنے یا کرپشن کرنے یا اس کی توہین کرنے والا امام زمان عجل الله فرجہ کا مخالف اور منکر ہے۔ الله امام مہدیؑ کے ملک اور غلاموں کو سلامت رکھے۔
بندہٴ حقیر محمد کاظم خراسانی“ [58]
محسن کدیور صاحب کی جمع کردہ دستاویزات کے مطابق آخوند خراسانی نےتحریک جمہوریت کیلئے انقلاب کا لفظ پہلی بار 6ستمبر 1909 کو استعمال کیا، جب گیلان سے آنے والی کمک اور بختیاری قبائل کے لوگوں کی آمد کے بعد تہران پر جمہوریت پسندوں کا دوبارہ قبضہ ہوا۔[59] گویا جہاں وہ اس بات سے خوش تھے کہ پارلیمنٹ کو بحال کر لیا گیا ہے وہیں ایسا ممکن ہے کہ وہ سیاسی عمل کے ہاتھ سے نکل جانے کے خدشے سے بھی دو چار ہوں۔
ان کی اعتدال پسندی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جب کچھ لوگوں نے آئین میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے شامل کی گئی شقوں پر اعتراض کیا تو آخوند خراسانی نے انھیں یاد دلایا کہ یہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا:
”بسم الله الرحمن الرحیم. ایذا و تحقیر طایفہ ی زردشتیہ و سایر اہل ذمہ کہ در حمایت اسلام اند حرام، و بر تمام مسلمین واجب است کہ وصایای حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ الطاہرین را در حسن سلوک و تالیف قلوب و حفظ نفوس و اعراض اموال ایشان کما ینبغی رعایت نمایند و سر مویی تخلف نکنند. ان شا اللّہ تعالیٰ
من الاحقر محمد کاظم خراسانی“
ترجمہ: ”اسلام کی حمایت میں رہنے والے زرتشتیوں اور دوسرے ذمیوں کو تکلیف پہنچانا یا ان کی بے عزتی کرنا حرام ہے، اور سب مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان سے حسن سلوک، ان کی تالیف قلبی اور ان کی جان و مال کے تحفظ کے سلسلے میں حضرت خاتم النبیینﷺ کی وصیتوں کے پابند رہیں اور بال برابر انحراف نہ کریں۔ ، انشااللہ۔
بندہٴ حقیر محمد کاظم خراسانی“ [60]
البتہ اس بیان کے بہت مختصر و جامع ہونے کی وجہ سے یہ اندازا لگانا تھوڑا مشکل ہے کہ وہ اقلیتوں کیلئے آئین میں کس مقام کے قائل تھے اور کیا وہ مجتہد سید محمّد طباطبائی کی طرح مسلمانوں اور غیر مسلموں میں بنیادی انسانی برابری کے قائل تھے یا نہیں؟
تمام ماخذ قابل دسترس نہ ہونے کی وجہ سے ہنوز اس بات کا فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ آیا آخوند خراسانی ہمیشہ تحریک جمہوریت کی حمایت کرتے تھے اور کیا وہ اس سلسلے میں جدوجہد کرنے والی سبھی قوتوں کے حامی تھے؟ ہم نے پہلے کسی مقام پر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ذاتی ڈائری بعض اوقات بڑی مفید ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ اگرچہ عوام میں ثقۃ الاسلام تبریزی آئینی جمہوریت کی تحریک کے بڑے پرجوش حامی تھے، لیکن اپنی ذاتی ڈائری میں وہ اپنے کچھ شکوک و تحفظات لکھا کرتے تھے۔[61] وہ خاص طور پر ستار خان اور اس کے مجاہدین کی پیدا کردہ بے نظمی سے کافی پریشان تھے۔[62] جہاں تک آخوند خراسانی کا تعلق ہے، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نہ تو بختیاری قبائل کی مدد سے اصفہان اور تہران کا فتح ہونا [63] اور نہ ہی تبریز کا ستار خان اور باقر خان کی رہنمائی میں لڑنے والے مجاہدین کے ہاتھوں میں جانا، نہ ہی غیر مسلم اقلیتوں کی طرف سے کئے جانے والے مطالبات، یہ سب عوامل اتنے اہم نہ تھے کہ آخوند خراسانی انہیں تحریک کے رخ کے تعین میں فیصلہ کن سمجھتے۔
(عرض مترجم: اہلیان ہمدان کے نام خط میں آخوند خراسانی لکھتے ہیں:
”عجبا چگونہ مسلمانان، خاصہی علماء ایران، ضروری مذہب امامیہ را فراموش نمودند کہ سلطنت مشروعہ آن است کہ متصدی امور عامہی ناس و رتق و فتق کارہای قاطبہی مسلمین و فیصل کافہی مہام بہ دست شخص معصوم و موید و منصوب و منصوص و مأمور مِن اللہ باشد مانند انبیاء و اولیاء (ع) و مثل خلافت امیرالمومنین (ع) و ایام ظہور و رجعت حضرت حجت (ع)، و اگر حاکم مطلق معصوم نباشد، آن سلطنت غیرمشروعہ است، چنانکہ در زمان غیبت است و سلنطت غیرمشروعہ دو قسم است، عادلہ، نظیر مشروطہ کہ مباشر امور عامہ، عقلا و متدینین باشند و ظالمہ و جابرہ است، مثل آنکہ حاکم مطلق یک نفر مطلقالعنان خودسر باشد. البتہ بہ صریح حکم عقل و بہ فصیح منصوصات شرع «غیر مشروعہی عادلہ» مقدم است بر «غیرمشروعہی جابرہ». و بہ تجربہ و تدقیقات صحیحہ و غور رسیہای شافیہ مبرہن شدہ کہ نُہ عشر تعدیات دورہی استبداد در دورہی مشروطیت کمتر میشود و دفع افسد و اقبح بہ فاسد و بہ قبیح واجب است. چگونہ مسلم جرأت تفوہ بہ مشروعیت سلطنت جابرہ میکند و حال آنکہ از ضروریات مذہب جعفری غاصبیت سلطنت شیعہ است.“ حوالہ: سیاست نامۂ خراسانی، صفحات 214، 215
ترجمہ: ”میں حیرت زدہ ہوں کہ مسلمانوں، اور خصوصاً بعض ایرانی علما، نے شیعہ مسلک کے اس بنیادی عقیدے کو کیسے فراموش کیا ہے جس کے مطابق شرعی طور پر حکومت کرنے، عوام کے امور کو چلانے، مسلم معاشرے کے مسائل کے حل کرنے اور اہم فیصلے کرنے کا حق صرف اور صرف معصومؑ کا ہے کہ جو اللہ کی طرف سے منصوب و منصوص و مامور و تائید یافتہ ہو، جیسا کہ انبیاؑء و اولیاؑء کے زمانے میں تھا یا امیر المومنین ؑ کی خلافت کے وقت تھا اور جیسا حضرت حجتؑ کے ظہور و رجعت کے زمانے میں ہو گا۔ اگر ولایتِ مطلقہ معصوم کے پاس نہ ہو تو یہ غیر شرعی بادشاہت ہو گی۔ چونکہ یہ غیبت کا زمانہ ہے تو یہاں دو قسم کی غیر شرعی حکومتیں ہو سکتی ہیں: پہلی انصاف پر مبنی جمہوریت کہ جس میں عوام کے معاملات متعدد دین دار عقلمندوں کے ہاتھ میں ہوں، اور دوسری ظلم و جبر کی حکومت جس میں ایک خود سر شخص ولیٴ مطلق بن بیٹھے۔ پس عقل اور شرعی نصوص کے اعتبار سے غیر شرعی حکومتوں میں جو عادلانہ ہو اسے ظالمانہ حکومت پر برتری حاصل ہو گی۔ انسانی تجربے اور دقیق اور تسلی بخش غور و فکر سے واضح ہو چکا ہے کہ جمہوریت استبداد کے ظلم میں کمی لاتی ہے اور کمتر برائی کو زیادہ برائی پر فوقیت دینا واجب ہے۔ ایک مسلمان کیسے جابر سلطان کی حکومت کو شرعی کہنے کی جرات کر سکتا ہے جبکہ سلطنت کو غصب شدہ سمجھنا مذہبِ جعفری کی ضروریات میں سے ہے؟“)
آخوند خراسانی بطور مرجع
آخوند خراسانی کا نسبتاً معتدل رویہ دو عوامل کی بنیاد پر قابل توجیہ ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ کئی سالوں سے نجف میں رہ رہے تھے اور ایران کے واقعات کے عینی شاہد نہ تھے۔ ایران کے بادشاہ محمد علی شاہ قاجار اور شیخ فضل الله نوری، دونوں نے ان کے خلاف اس نکتے کو اٹھایا کہ اس بنیاد پر وہ ایران کے سیاسی معاملات پر رائے دینے کے اہل نہیں ہیں۔[64] دوسری وجہ جو اس سے بھی اہم ہے یہ ہے کہ آخوند خراسانی اہل تشیع کے سب سے بڑے مرجع تقلید تھے۔ اس وجہ سے انہوں نے ایسا توافق پیدا کرنے والا بیانیہ ترتیب دینے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں جمہوری قوتوں میں اتحاد قائم ہو اور جو اختلاف پیدا کرنے کا سبب نہ بنے۔ جس چیز کو اولیت حاصل تھی یہ تھی کہ وہ شرعی ذمہ داری کا تعین کرنے والی قوت تھے، ایسا شخص جو ایران کے ہر علاقے میں آئین کے حامیوں میں سے کچھ کی تائید کر کے انہیں ہم وطنوں کی نگاہ میں معتبر بنا سکتا تھا۔
عتبات کے علما، اور خاص طور پر مرجع اعلیٰ، کو ایرانی عوام اور بالخصوص عام مولویوں میں دیانت داری کا نمونہ سمجھا جاتا تھا اور ان کی بات کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ ثقۃ الاسلام تبریزی کے بیانات اس نکتے کی وضاحت کرتے ہیں کہ نجف کے مراجع اور بالخصوص آخوند خراسانی کے گرد کس قسم کا تقدس کا ہالہ موجود تھا۔ ثقۃ الاسلام تبریزی جہاں ایران کے عام مولویوں پر تنقید کرتے ہیں وہیں عتبات کے علما کو کامل انسان قرار دیتے ہیں۔ وہ علما کو دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں: پہلے وہ قابل اعتماد اور فساد سے پاک لوگ جن کی تعداد بہت کم ہے اور دوسرے وہ جاہل مولوی جن کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پہلے گروہ میں وہ لوگ ہیں جنہیں وہ حججِ اسلامِ عتبات کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ اپنی کتاب ”لالان“ میں وہ ان کیلئے آیت الله کا لقب بھی استعمال کرتے ہیں۔ دوسرا گروہ وہ سادہ ملا ہیں جو ایران میں رہتے ہیں، ان کیلئے وہ بہت تلخ لہجہ استعمال کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ ثقۃ الاسلام تبریزی یہ سمجھتے ہیں کہ مومنین کو فقہی مسائل کے علاوہ سیاسی مسائل میں بھی نجف کے مراجع کی پیروی کرنی چاہئیے۔ وہ اس نکتے کی وضاحت یوں کرتے ہیں:
”جسے اپنے نفس پر قابو ہے، جو اپنے ایمان کی حفاظت کرتا ہے، ذاتی خواہشات کی پیروی کے بجائے مولا کی اطاعت کرتا ہے، وہی اس قابل ہے کہ عوام اس کو اپنے لئے معیار قرار دیں۔ “ [65]
ایک اور جگہ کہتے ہیں:
”ہم نے بھی، ہم جمہوریت پسند لوگوں نے مراجع کی اطاعت میں سر تسلیم خم کر لیا ہے۔ “ [66]
نجف کے بزرگ فقہا کی اطاعت ثقۃ الاسلام تبریزی سمیت بہت سے لوگوں کی نظر میں واجب تھی۔ اس موضوع پر انہوں نے کہا:
”امامؑ کی غیبت میں ہم صراحت سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کی بنیادوں کا تحفظ ممکن نہیں مگر یہ کہ اس آب و خاک کا تحفظ کیا جائے جسے ہم مادرِ وطن کہتے ہیں۔ ایسا اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم اس ظاہری طاقت (مرجعیت) سے مدد لیں، جیسا کہ اب تک کیا گیا ہے۔ “ [67]
ایک اور جگہ کہتے ہیں:
”آئیے اس مفروضے پر بات کرتے ہیں کہ آئین شریعت سے متصادم ہے۔ اس قسم کے تمام دعوے بے بنیاد ہیں کیوں کہ عتبات کے حجج اسلام، جو آج تمام شیعوں کے مرجع و ملجا ہیں، نے آئینی جمہوریت کے لزوم میں بڑے واضح فتوے دئیے ہیں۔ تحریری حمایت کے علاوہ انہوں نے عملی حمایت بھی کی ہے۔ وہ آئین کو شوکتِ اسلام کا پشتیبان سمجھتے ہیں۔ “ [68]
بہت سے دوسرے قانون کی حکومت کے حامی علما کی طرح ثقۃ الاسلام تبریزی بھی پارلیمنٹ کے قوانین کی توثیق کیلئے تہران کے پانچ مجتہدوں کی کمیٹی بنانے کے خلاف تھے۔ ان کے مطابق:
”ہمیں ایسے لوگوں کا انتخاب کرنا چاہئیے جنہیں سب قبول کرتے ہوں اور جن کے پاس سب کے اعتماد کی طاقت ہو۔ یہ لطیف معاملات عتبات کے سپرد کرنے چاہئیں اور وہاں موجود شخصیات جو کہیں وہ ہر ایرانی قبول کرے گا۔ ۔ ۔ آج عوام کے نمائندے اپنی نمائندگی کی ذمہ داریوں کے بارے میں حساس ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ملکی آئین کو پانچ لوگوں کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے پاس اس بات کا کوئی حق نہیں کہ ہم حکومت تہران کے چار یا پانچ ملاؤں کے حوالے کر دیں۔ “ [69]
ساتھ ہی ثقۃ الاسلام تبریزی اس بات پر بھی افسوس کرتے ہیں کہ آخوند خراسانی ایران آنے کے بجائے نجف میں رکنا زیادہ پسند کرتے ہیں:
”عتبات کے حجج اسلام کا مقصد بد نظمی، ظلم، وسائل کے ضیاع اور قومی اضطراب کو روکنا ہے، انہیں نہ تو دولت کا لالچ ہے نہ ہی اقتدار کی ہوس، ان کا دامن ہر دھبے سے پاک ہے۔ اب جو مصائب یہاں ہمیں درپیش ہیں ان کا انہیں پوری طرح ادراک نہیں ہو پاتا تو اس کی وجوہات صاف ظاہر ہیں: وہ دار الحکومت سے دور ہیں اور ان تک کم خبریں پہنچتی ہیں۔ “ [70]
یہ بات قابل فہم ہے کہ یہ جذبات قانون کی حکومت چاہنے والے اکثر لوگوں میں پائے جاتے تھے جو نجف کے مراجع کی طرف سے زیادہ بڑے کردار کی امید رکھتے تھے۔ بظاہر بیسویں صدی عیسوی کے آغاز پر تہران میں بارہ ایسے علما تھے جنہیں مجتہد سمجھا جا سکتا تھا۔ ان بارہ میں شیخ فضل الله نوری واحد شخص تھا جو باقاعدگی سے درس بھی دیتا تھا۔[71] شہر کے عوام عتبات کے مراجع کے ساتھ ساتھ شہر کے کسی مجتہد کی بھی پیروی کرتے تھے۔ تحریکِ جمہوریت کے آغاز پر تہران میں سب سے زیادہ مقلد عمر رسیدہ مرجع آیت الله مرزا محمد حسین تہرانی کے تھے، [72] اور چونکہ وہ آخوند خراسانی کے بہت قریب تھے لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ 1908 میں ان کی رحلت کے بعد تہران میں آخوند خراسانی کی تقلید نے رواج پایا۔
آخوند خراسانی نے جمہوری جدوجہد کرنے والی کئی جماعتوں اور تنظیموں کی حمایت کی، ان میں گیلان کی انجمنِ فاطمیہ، [73] تبریز کی انجمنِ ایالاتی، استنبول کی انجمنِ سادات [74] اور بوشہر کی انجمن شامل ہیں۔[75] پارلیمنٹ کے معطل کئے جانے کے بعد جب ایران میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تو آخوند خراسانی نے جمہوری قوتوں کے نام پیغام میں کہا کہ وہ تبریز کی انجمن ایالاتی کو عارضی پارلیمان کا درجہ دے دیں۔[76] اس عمل سے آذربائیجان کی جمہوری تحریک کو تقویت مل سکتی تھی۔ قاجار سلطنت کے آغاز سے ہی تبریز اصلاح پسندی کی طرف سب سے زیادہ مائل تھا۔[77] شہر کی آبادی کا تناسب، [78] اس کی نسبتاً اچھی اقتصادی حالت، [79] اس کا جغرافیائی طور پر روسی اور عثمانی سلطنتوں کے قریب ہونا، 1834 میں محمد شاہ قاجار کی تخت نشینی سے پہلے تک اہم ممالک کے سفارت خانوں کا اس شہر میں ہونا، اور تحریکِ جمہوریت کے دوران شہر میں کچھ جدید تعلیمی اداروں کے وجود میں آنے جیسے عوامل نے دوسرے شہروں کی نسبت تبریز کو ایک غیر معمولی جگہ بنا دیا تھا۔ 9 نومبر 1908 کو بھیجے گئے متعدد پیغامات میں بادشاہ محمّد علی شاہ قاجار کو ٹیکس دینے سے عوام کو منع کرنے کے بعد جولائی 1909 میں آخوند خراسانی نے عوام سے کہا کہ وہ اپنا ٹیکس تحریکِ جمہوریت سے وابستہ مقامی انجمنوں کو دیں۔[80] البتہ اس بات کا اندازا لگانا مشکل ہے کہ ان کے اس بیان پر کس قدر عمل ہوا۔
1911 میں روس کے حملے کے بعد آخوند خراسانی نے ملک کو جہاد کیلئے تیار کرنے کیلئے بھی انجمن کی حمایت کی۔ مزید یہ کہ انہوں نے اپنے ایک قریبی فرد شیخ اسد الله مامقانی کو استنبول میں انجمنِ سادات سے اظہار یکجہتی کیلئے بھیجا تاکہ وہ ان کے اہداف کیلئے عتبات کے مرجع تقلید کی حمایت کا اظہار کریں۔[81]
آخوند خراسانی نے ایران کی کئی معاصر شخصیات کی حمایت بھی کی، جن میں مجتہد عبد الحسین لاری شامل ہیں، [82] جن کی حمایت کیلئے انہوں نے 1909 میں جنوبی علاقوں کے عوام کو دعوت دی، اور مجتہد شیخ ابراہیم زنجانی [83] کہ جو 1907 میں پارلیمنٹ ک