دوسری حقیقت یہ کہ ہمارے قدرتی وسائل کی زیادہ ترمیپنگ (نقشہ سازی) برطانوی دور میں ہوئی تھی اور زولوجیکل، ہائیڈرولوجیکل اور بوٹینیکل وسائل کی خاصی تفصیل موجود ہے۔ لیکن آزادی کے بعد مہارت کا دائرہ سمٹ کر کچھ ماہرین کے ہاتھوں میں محدود ہو گیا۔ یوں بیوروکریسی اور سیاسی لیڈرشپ میں اس کا اثر و رسوخ بھی ماند پڑ گیا۔
1972 سے 2010 اور اس کے بعد بھی پاکستان نے ماحولیات کی بقا و تحفظ کے لئے کئی اہم معاہدوں پر دستخط کیے۔ ان پر عمل درآمد کتنا ہوا، یہ ایک الگ موضوعِ بحث ہے لیکن ان کے باعث بہت سی پالیسیاں تشکیل دینے اور فریم ورک کے اجرا میں مدد ملی۔
لیکن ان معاہدوں کے حوالے سے بہت کچھ ہونا باقی ہے اورباقی اہم معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی ٹال مٹول کا عنصر نمایاں ہے۔ صوبائی کلائمیٹ پالیسیاں حکومتی منظوری کی منتظر ہیں۔ البتہ متبادل توانائی کے حوالے سے پیش رفت ضرور نظر ہوئی ہے۔ پاکستان کے پاس اب ایک عدد الیکٹرونک وہیکل پالیسی ہے جبکہ درخت اگانے کے معاملے کو بھی جارحانہ انداز میں آگے بڑھایا گیا ہے۔
متبادل توانائی کے حوالے سے ایسے اور بھی کئی اقدامات کیے گئے ہیں، لیکن اب بھی پاکستان کے صرف 5 فیصد رقبے پر جنگلات موجود ہیں جب کہ عالمی معیارات کے مطابق کم از کم 25 فیصد رقبے پر جنگل ہونا چاہیے۔
البتہ پاکستان نے مینگروو فوریسٹ کے حوالے سے زبردست پیش رفت کی اور ایک دن کے دوران ان درختوں کو اگانے کے حوالے سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کی تین انٹریز اپنے نام کیں۔
پاکستان میں وائلڈ لائف بھی ٹرافی ہنٹنگ کی بنا پر سنگین خطرے سے دوچار ہے لیکن حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ بہت سی مقامی اور بین الاقوامی تنظیمیں اس حوالے سے مصروف عمل ہیں۔
پاکستان ولنریبلٹی انڈیکس کے ٹاپ 10 بریکٹ میں موجود ہے اور اسی لئے ہمیں ماحولیات کے حوالے سے اپنے ردعمل میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ایس ڈی جی اہداف کو مدنظر رکھنا بھی نہایت اہم ہے۔
یہ اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ پاکستان قدرتی آفتوں کا سامنا کر رہا ہے اور کلائمیٹ کے حوالے سے عدم آگاہی بڑے چیلنجز میں سے ایک ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام تر توانائیاں اکٹھی کر کے ایک جامع حکمت عملی ترتیب دی جائے۔
ہمارے یہی اقدامات مستقبل میں پاکستان کی ماحولیات کے حوالے سے سمت کا تعین کریں گے۔ بحیثیت قوم ہمیں اپنی ترجیحات کوماحولیاتی ضروریات سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے بنیادی ترجیح یہی ہونی چاہیے کہ معاہدوں کو پورا کیا جائے اوراس کے ذریعے لوگوں کو غربت سے نکالنے اورماحولیات بہتر بنانے پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ اسی میں ہمارے مستقبل کی بقا اور سلامتی پوشیدہ ہے۔