فلاپ فلم بنانے کا کامیاب نسخہ جو پاکستان میں دہائیوں سے چل رہا ہے

کبھی کبھار پروڈیوسر نئے ہدایت کاروں کے ساتھ کام کرنے کے لیے انتہائی مشہور اداکاروں کو شامل کرتے ہیں۔ اگر یہ اداکار ہدایت کار کی رہنمائی پر عمل کرنے میں ناکام رہیں یا یہ کہہ کر ضرورت سے زیادہ سکرین ٹائم پر اصرار کریں کہ 'کیمرہ میرے چہرے پر رکھیں' تو فلم لامحالہ تباہی کی طرف بڑھ جاتی ہے۔

08:28 PM, 4 Sep, 2023

ڈاکٹر حسن ظفر

اکثر کہانیوں اور فلموں کا آغاز ایک ڈسکلیمر کے ساتھ ہوتا ہے اور میں بھیم ایسا ہی کرنے جا رہا ہوں؛

اس مضمون کے تمام منظرنامے خالصتاً فرضی ہیں اور حقیقی زندگی کے واقعات یا افراد سے کوئی مماثلت خالصتاً اتفاقی ہے۔

ایک فلاپ فلم بنانے کا راز ناقص یا غیر مماثل کاسٹنگ میں مضمر ہے۔ 'ناقص کاسٹنگ' سے ہماری مراد پھسپھسے اداکاروں کا انتخاب ہے اور دوسری طرف 'غیر مماثل کاسٹنگ' میں ایسے اداکار شامل ہوتے ہیں جن کی عمر، ظاہری شکل و صورت، یا دیگر صفات ان کرداروں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں جن کی انہیں تصویر کشی کا کام سونپا گیا ہوتا ہے۔ اکثر یہ نوسکھیے ڈائریکٹرز یا پروڈیوسرز ہوتے ہیں جو ناقص کاسٹنگ کرتے ہیں البتہ تجربہ کار ہاتھ بھی جانبداری کا شکار ہو کے یا مالی مجبوریوں کی وجہ سے معیار پر سمجھوتہ کر جاتے ہیں۔ ایسے اداکار اکثر اوور ایکٹنگ کا شکار ہوتے ہیں اور اوور ایکٹنگ فلم کو برباد کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے۔

فلم کو ڈبونے کا ایک بہترین اور آزمودہ نسخہ یہ بھی ہے کہ پروڈیوسر یا اداکار ہدایت کار کے اختیار کو چھین لے۔ یہ عمل نظم وضبط کو برباد کر دے گا۔ کبھی کبھار پروڈیوسر نئے ہدایت کاروں کے ساتھ کام کرنے کے لیے انتہائی مشہور اداکاروں کو شامل کرتے ہیں۔ اگر یہ اداکار ہدایت کار کی رہنمائی پر عمل کرنے میں ناکام رہیں یا یہ کہہ کر ضرورت سے زیادہ سکرین ٹائم پر اصرار کریں کہ 'کیمرہ میرے چہرے پر رکھیں' تو فلم لامحالہ تباہی کی طرف بڑھ جاتی ہے۔ علاوہ ازیں پروڈیوسر خود ڈائریکٹر کے ڈومین پر تجاوز کر کے اس بربادی میں نمایاں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ ایسا اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب پروڈیوسر خود فلم پر پیسہ لگا رہے ہوں۔ ایک پیشہ ور پروڈیوسر یقینی طور پر اس طرح کی مداخلت سے پرہیز کرے گا۔

ہر کہانی کار داستان گوئی کے کلاسک تھری ایکٹ ڈھانچے کو سمجھتا ہے؛ آغاز، وسط اور اختتام۔ پہلے ایکٹ میں، جسے 'ابتدا' کہا جاتا ہے، ہمیں مرکزی تنازعہ سے متعارف کرایا جاتا ہے، جو کہانی کے بنیادی بحران کو کھولتا ہے اور 'آخر' میں، ابتدائی مسئلہ کا حل تلاش کرتا ہے۔ اس مساوات میں، اختتام یا ریزولیوشن کو کلائمکس کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، جب کہانی اپنے عروج پر پہنچتی ہے تو وہ ایک مناسب نتیجے کی متلاشی ہوتی ہے۔ اگر یہ توازن برقرارنہ رہے یا اگر اس میں ہم آہنگی کا فقدان ہو تو کہانی فلم بینوں کو مایوس اور غیر مطمئن چھوڑ دیتی ہے۔

ایک کلاسک میلو ڈرامہ پر غور کریں۔ اس کا تھیم انصاف کے حصول کے گرد گھومتا ہے، جس میں ایک ہیرو ظالموں کو سزا دینے اور امن وامان کی بحالی کے مشن پر مامور ہے۔ میلو ڈرامے اکثر سنسنی خیزی، ایکشن اور جذباتی مکالموں سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ان میں جذباتی سطح پر سامعین کو مسحور کرنے کی طاقت ہوتی ہے، جس سے بدعنوانی کرنے والوں کیلئے سزا کی توقعات بڑھ جاتی ہیں۔ اس منظرنامے کی تصویر کشی کریں؛ ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے خزانہ چوری کر لیا ہے، جس سے خوراک کی قلت پیدا ہو گئی ہے اور عوام بدحالی کا شکار ہیں۔ جب ہیرو ڈاکوؤں کو پکڑنے کی جستجو کرتا ہے تو فلم بینوں کی امیدیں اس کے ساتھ جڑ جاتی ہیں۔ ایسی صورت حال میں سامعین شاذ ونادر ہی اس بارے میں فکر مند ہوتے ہیں کہ ان کا ہیرو ڈاکوؤں کو پکڑنے کا جو طریقہ اپنائے گا وہ صحیح ہے یا غلط۔ ان کا مقصد اپنے ہیرو کے مشن کو کامیابی سے ہمکنار ہوتے دیکھنا ہوتا ہے۔

بالآخر تمام سامعین ہیرو کی فتح اور بدکرداروں کی سزا کا انتظار کرتے ہیں اور یہی ایک میلو ڈرامے کا منطقی انجام ہوتا ہے۔

چنانچہ، تعاقب شروع ہوتا ہے۔ ہمارا ہیرو متعدد چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھتا رہتا ہے۔ اچانک کہانی ایک غیر متوقع موڑ لیتی ہے۔ دوست دشمن بن جاتے ہیں۔ ایک وحشیانہ تصادم میں، بدمعاش غالب آ کر ہمارے ہیرو کو دھوکہ دیتے ہیں اور زخمی چھوڑ کر فرار ہو جاتے ہیں۔ ڈاکو اپنی فتح پر جشن مناتے ہیں اور ہیرو کو جلاوطن کرنے کی سازش کرتے ہیں۔ لیکن کامیابی اس کہانی کے لکھنے والے کی ہے جو انجام کو کلائمکس کے ساتھ ہم آہنگ ہونے نہیں دیتا۔ عدم اطمینان فلم بینوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، مایوسی پھیل جاتی ہے۔ خالی بوتلیں سکرین پر پھینکی جاتی ہیں، فرنیچر بکھر جاتا ہے، اور کچھ ناظرین تو پورے تھئیٹر کو آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔

فلمساز ایک ناقص انجام کے ذریعے فلم کو تباہی سے ہمکنار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

فلم کے فلاپ کرنے کا ایک اور، ذرا لطیف راستہ موجود ہے؛ وہ یہ کہ پروڈیوسر رائیٹر کا کردار سنبھال لے اور دل میں اس یقین کی پرورش کر لے کہ وہ ایک مصنف کی صلاحیتوں کا حامل ہے۔ اس طرح وہ ایک ایسی داستان پر مبنی فلم تیار کرے گا جو ہمیشہ سے اس کے دل میں ایک خاص مقام رکھتی تھی۔ اس طرح کی کہانیاں اکثر سلور سکرین پر تباہی مچاتی ہیں۔ آپ پوچھ سکتے ہیں، کہ کیوں؟ اس کا جواب کہانی کے ساتھ پروڈیوسرکے غیر متزلزل لگاؤ میں مضمر ہے، جو کہ اس کو بے شمار دیگر عناصر سے غافل کر دیتا ہے جن کا تقاضا سنیما کرتا ہے۔ ایسے میں سامعین کی خواہشات ثانوی بن جاتی ہیں اور پروڈیوسر کی ذاتی ترجیحات مسلط ہو جاتی ہیں اور یہ فلم کے ناگزیر زوال کا باعث بنتی ہیں۔

اس طرح کی کہانیاں اکثر سماجی اور سیاسی طور پر متحرک پروڈیوسروں کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں، جن سے وہ سامعین کو کوئی گہرا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ اپنے اس پیغام میں پختہ یقین انہیں ایک بنیادی حقیقت سے اندھا کر دیتا ہے کہ سامعین کسی پیغام کیلئے سنیما کے ٹکٹ نہیں خریدتے یا انہوں نے لیکچر سننے کیلئے پیسے نہیں خرچے۔ اس طرح کی فلمیں بے شمار تعریفی اسناد اور ایوارڈز تو حاصل کر سکتی ہیں، لیکن جب سنیما کے ناظرین کے سامنے آتی ہیں تو ہمیشہ ناکامی ان کے قدم چومتی ہے۔

پچھلی دہائی میں بنی کئی پاکستانی فلمیں اس کی کھلی مثال ہیں۔

لہٰذا اگر کوئی پروڈیوسر فلم تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے تو اسے اس مضمون میں فراہم کردہ عوامل کو یقینی بنانا ہو گا۔ یعنی خراب کاسٹنگ، اوور ایکٹنگ، ڈائریکٹر کے اختیار کو مجروح کرنا، ایک غیر منطقی انجام کے ساتھ فلم بینوں کو مایوس کرنا، اور سامعین کو اپنے دل کے قریب کہانی کے ساتھ لیکچر دینے کی کوشش کرنا۔ خدانخواستہ، یہ سب کر کے بھی اگر کوئی کمی رہ جائے تو ہیروئین کے ساتھ چکر چلا لیں، رہی سہی کثر پوری ہو جائے گی۔

خیال رہے، ان ہدایات سے کسی بھی قسم کی روگردانی سے فلم باکس آفس پر ہٹ ہو سکتی ہے۔

مزیدخبریں