یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب تین اپریل کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کے بعد عمران خان نے اسمبلیاں تحلیل کروالیں، جس کے بعد وفاقی کابینہ ختم ہوگئی اور اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
معید یوسف نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ “آج، میں انتہائی مطمئن ہوں، سب سے زیادہ اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ این ایس اے کا دفتر اور این ایس ڈی ایک غیر معمولی ٹیم کے ساتھ متحرک ادارے ہیں جو پاکستان کے لیے باعث فخر رہیں گے‘۔
انہوں نے وزیراعظم عمران خان کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے بے پناہ ذمہ داری کے ساتھ ان پر اعتماد کیا اور انہیں بطور این ایس اے اپنے کردار کے ساتھ انصاف کرنے کی اجازت دی۔
انہوں نے کہاکہ کہ ’بہت کم لوگ ایسے خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں کسی اعلیٰ عہدے پر اپنے ملک کی خدمت کا موقع ملتا ہے۔ اس سے بھی کم لوگ میری عمر میں ایسا کرتے ہیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے نہ صرف یہ اعزاز مجھے حاصل ہوا بلکہ یہ ڈھائی سال کا ناقابل یقین سفر ہے، جسے میں ہمیشہ یاد رکھوں گا۔‘
https://twitter.com/YusufMoeed/status/1510941000038035458
انہوں نے اپنی ٹیم اور پاکستانی قوم کا بھی شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا: ’وہ تمام پاکستانی، جنہوں نے میری موجودگی کو سراہا اور جنہوں نے میرے کام پر تنقید کی، میں ان سب کا شکر گزار ہوں۔ تعریف کرنے والوں نے مجھے حوصلہ دیا جبکہ تنقید کرنے والوں نے مجھے اور میری ٹیم کو مزید کوشش کرنے اور اپنے کام میں بہتری لانے پر مجبور کیا۔‘
خیال رہے کہ معید یوسف کو 24 دسمبر 2019 کو قومی سلامتی ڈویژن اور سٹریٹجک پالیسی پلاننگ میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی کے طور پر مقرر کرتے ہوئے وزیر مملکت کا عہدہ دیا گیا تھا۔ بعدازاں حکومت نے 17 مئی 2021 کو معید یوسف کے عہدے کو وزیراعظم کے معاون خصوصی سے مشیر برائے قومی سلامتی میں تبدیل کرکے انہیں وفاقی وزیر کے برابر درجہ دے دیا تھا۔
معید یوسف نے اپنے دور میں ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کو حتمی شکل دینے کا کام کامیابی کے ساتھ انجام دیا۔
معید یوسف نے شارٹر کالج سے بی بی اے اور بوسٹن یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔
انہوں نے 2009 میں بوسٹن یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز اور پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ میں بطور سینیئر فیلو پڑھایا جبکہ وہ قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد میں ڈیفنس اور سٹریٹیجک سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ سے بحیثیت استاد بھی منسلک رہے۔
وہ انگریزی کے ہفتہ وار اخبار فرائیڈے ٹائمز میں کالم بھی لکھتے رہے ہیں۔