محمود خان اچکزئی کیساتھ سپریم کورٹ میں پیش آنے والے واقعے پر پاکستان بار کونسل بلوچستان کے رکن کا ردعمل 

منیر احمد خان کاکڑ ایڈووکیٹ نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اداروں کی عدالتی معاملات میں مداخلت کا ثبوت نظر نہیں آرہا کیا ان کے آنکھوں سے یہ سب کچھ غائب ہے یا اس نے سب ٹھیک ہے کے عینک لگا رکھے ہیں دنیا میں ایسی صورت حال کہیں نظر نہیں آرہی۔

10:45 AM, 5 Apr, 2024

سید صبیح الحسنین

پاکستان بار کونسل کے ممبر منیر احمد خان کاکڑ ایڈووکیٹ نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی سپریم کورٹ میں ججز خط کے کیس کی سماعت سے روکنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں واحد عدالت ہوتی ہے جس کے دروازے ہر کسی کے لیے کھلے ہوتے ہیں لیکن ایک سفید ریش معتبر اور روز اول سے اصول پر پاپند سیاستدان اور صدارتی امیدوار جو رکن قومی اسمبلی بھی ہیں، انہیں پولیس اہلکار روکتے ہیں اور یہ عمل سپریم کورٹ کے بلڈینگ میں کس کی اجازت سے اور کیوں روکا گیا ہے ؟ 

منیر احمد خان کاکڑ  نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ناک کے نیچے یہ کیسا ہو رہا ہے اور اب یہ قاضی فائز عیسیٰ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پوچھیں اور تحقیقات کریں۔ 

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

منیر احمد خان کاکڑ ایڈووکیٹ نے اپنے جاری کردہ بیان میں ان خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی نظام میں اداروں کی مداخلت کا کھلا ثبوت اس سے زیادہ کیا ہوگا کہ پاکستان کے آئینی عہدے صدر پاکستان کے امیدوار سب سے سپریم ادارے پارلیمنٹ کے رکن اور سفید ریش با اصول سیاستدان و پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں  ججز خط کیس کی سماعت  کیلئے جانے سے روکا جاتا ہے۔ پاکستان میں واحد عدالت ہوتی ہے جس کے دروازے ہر کسی کھلے ہوتے ہیں لیکن ایک سفید ریش سیاستدان پولیس اہلکار روکتے ہیں سپریم کورٹ میں تعینات پولیس کس کے کہنے پر چل رہی ہے اور محمود خان اچکزئی کو کس کی اجازت سے روکا گیا ہے ؟ 

پاکستان بار کونسل کے رکن نے مزیدکہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اداروں کی عدالتی معاملات میں مداخلت کا ثبوت نظر نہیں آرہا کیا ان کے آنکھوں سے یہ سب کچھ غائب ہے یا اس نے سب ٹھیک ہے کے عینک لگا رکھے ہیں دنیا میں ایسی صورت حال کہیں نظر نہیں آرہی۔ لہذا میں مطالبہ کرتا ہوں قاضی فائز عیسیٰ سے کہ وہ اس معاملہ کا نوٹس لے اور چھپے ہوئے کرداروں کو بے نقاب کرے اور  محمود خان سے باقاعدہ معذرت کی جائے۔

مزیدخبریں