اس کی تاریخ پر ایک مختصر نظر ڈالتے ہیں
13 جولائی، 1819
کشمیر کے سکھ حکمران نے شوپیاں کی جنگ کے بعد کشمیر پر قبضہ کر لیا
16 مارچ، 1846
برطانوی سرکار نے کشمیر کو سکھ حکمران سے حاصل کیا اور اسے مہاراجہ گلاب سنگھ کو منتقل کیا، یہ ڈوگرا راج کا نقط آغاز تھا۔
13 جولائی، 1931
کشمیر میں اس وقت ڈوگرا راج کے خلاف عوامی احتجاج اور مظاہرے دیکھنے، اس وقت پولیس کی فائرنگ میں 24 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، اس دن کو یوم شہدائے کشمیر منایا جاتا ہے۔
اکتوبر 1947
تقسیم کے وقت یہ طے ہوا کہ ریاستیں چاہیں تو جس مرضی ملک کے ساتھ الحاق کریں یا اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھیں، مہاراجہ ہری سنگھ نے مسلم اکثریت کے باوجود بھارت کا حصہ بننے کو ترجیح دی جس پر کشیدگی میں اضافہ ہوا اور 24اکتوبر 1947 کو آزاد کشمیر میں آزاد حکومت کے قیام کے ساتھ ہی قبائلی جنگجوؤوں نے سرینگر کی طرف رخ کیا اور سرینگر تک کے علاقے پر قبضہ کر لیا اور مہاراجہ کشمیر دارالحکومت سے بھاگ کر جموں چلا گیا۔
21 اپریل 1948
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے 21 اپریل 1948 کو ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں اس مسئلے کے حل کے لیے تین مرحلہ وار نکات تجویز کیے گئے۔
- پاکستان کشمیر سے اپنے تمام شہری واپس بلوائے
- انڈیا کشمیر میں صرف اتنی فوج رکھے جو کہ امن و امان کے قیام کے لیے ضروری ہو
- انڈیا اقوامِ متحدہ کا نامزد کردہ رائے شماری کمشنر تعینات کرے جو ریاست میں غیر جانبدار رائے شماری کروائے
1949 میں جنگ بندی کے بعد پاکستان اور انڈیا دونوں کے پاس کشمیر کا بالترتیب ایک تہائی اور دو تہائی حصے کا کنٹرول رہا اور سیز فائر لائن قائم ہوئی جسے بعد میں لائن آف کنٹرول قرار دیا گیا۔
13 ستمبر 1960
پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کے لیے ’سندھ طاس‘ معاہدہ طے پایا تھا۔
اس معاہدے کے ضامن میں عالمی بینک بھی شامل ہے۔
معاہدے کے تحت بھارت کو پنجاب میں بہنے والے تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج کا زیادہ پانی ملے گا یعنی اُس کا ان دریاؤں پر کنٹرول زیادہ ہو گا۔
جب کہ جموں و کشمیر سے نکلنے والے مغربی دریاؤں چناب اور جہلم اور سندھ کا زیادہ پانی پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔
6 ستمبر، 1965
پاکستان نے آپریشن جبرالٹر کا آغاز کیا، جس میں فوجی اور رضا کار شامل تھے، جن کا تعلق آزاد کشمیر سے تھا۔ اگست 1965 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بظاہر ایک مسلح مزاحمتی تحریک جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور اس ’بغاوت‘ کے ایک ماہ بعد بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت کا یہ حملہ ’بلا اشتعال‘ تھا۔ یہ جنگ 17 روز تک جاری رہی۔
1980
کشمیر میں آزادی کی تحریک نے ایک بار پھر زور پکڑا، جس میں جے کے ایل ایف جیسی تنظیمیں شامل تھیں، جس کے لیڈر مقبول بھٹ کو 1984 میں پھانسی دیدی گئی تھی۔ ان پر ایک سفارت کار کے قتل کا الزام تھا۔
1989 کے عام انتخابات کے بعد سےہی صورتحال خراب چلی آرہی تھی،جبکہ آزدی کے تحریک چلانے والوں کے خلاف آپریشن جاری تھا، فائرنگ سے 38 افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد مقامی سطح پرکشیدگی دیکھی گئی۔
مئی 1990
مولوی محمد فاروق کےقتل کے بعد ہونے والے مظاہروں میں 50 افراد قتل ہوئے، جب فورسز کی جانب سے ایک جنازے پر فائرنگ کی گئی۔ اس کے بعد تحریک آزادی میں تیزی آئی اور کئی پاکستانی جہادی بھی اس کا حصہ بن گئے۔
جولائی 1999
پاکستان اور بھارت کے درمیان کارگل جنگ لڑی گئی، پاکستان نے موسم سرما کے آغاز میں اپنے فوجی کارگل روانہ کیے تاہم وہ فوجی وردیوں میں ملبوس نہیں تھے۔ مقصد یہ تھا کہ لداخ کو کشمیر سے ملانے والے ہائی وے پر تسلط حاصل کیا جائے۔ تاہم جب اس کی اطلاع بھارت کو ہوئی تو دونوں ملکوں کے درمیان ایک تنازع کی صورتحال نے جنم لے لیا۔ اس جنگ کے بارے میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف مکمل طور پر لاعلم رہے جبکہ یہ منصوبہ آرمی چیف جنرل مشرف کا تھا۔ یہ جنگ امریکی صدر بل کلنٹن کی مداخلت سے ختم ہوئی تاہم کارگل کے نتیجے میں اٹل بہاری واجپائی اور نواز شریف کے درمیان ہونے والا معاہدہ کالعدم ہو گیا۔
جولائی 2001
پاکستان کے صدر پرویز مشرف اور واجپائی آگرا میں ملے اور دونوں ملکوں کے درمیان موجود اس تنازع کو حل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ تاہم کارگل کی وجہ سے دونوں کے درمیان عدم تحفظ کی صورتحال برقرار رہی۔
آگرا کے بعد پاکستان کی جانب سے حل بھی تجویز کیا گیا جس کے نقاط درج ذیل تھے، 1 جموں و کشمیر کو آزاد نہیں کیا جائے گا۔ 2 دوبارہ بارڈرز کی نئی تقسیم نہیں ہوگی3 ایل او سی کی حیثیت ختم کر دی جائے گی 4 دونوں ممالک ایک لائحہ عمل وضع کریں اور طے کر لیں کہ کونسے حصے دونوں ممالک کے پاس ہوں اور کونسے حصے کو خودمختاری دی جا سکتی ہے۔
26 نومبر 2008
ممبئی میں ہونیوالے دہشت گردانہ حملے میں دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کے 10 دہشت گردوں نے متعدد مقامات پر حملے کرکے 166 لوگوں کوقتل کر دیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں امریکی شہری بھی شامل تھے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے لاہور میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف سے انکی رہائش گاہ جاتی عمرہ میں ملاقات کی ، اس ملاقات کو انتہائی اہم تصور کیا جارہا تھا تاہم اس کے بھی مثبت نتائج نا نکل سکے۔
پٹھان کوٹ میں سنہ 2016 میں دو جنوری کو فضائی اڈے پر حملہ ہوا تھا۔ اس میں سات سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 20 تھی۔ جوابی حملے میں چار شدت پسند بھی ہلاک ہوئے تھے۔
جموں اور کشمیر کے اوڑی سیکٹر میں 18 ستمبر 2016 کو انڈین فوج کے کیمپ پر حملہ ہوا تھا۔ اس میں 19 سپاہی ہلاک ہوئے تھے۔
14 فروری، 2019
ضلع پلوامہ میں کاربم دھماکے میں 44 بھارتی فوجی ہلاک اوردرجنوں زخمی ہوئے تھے۔جس کا الزام بھارت نے مسعود اظہر پر لگایا تھا۔ اور دعوی کیا کہ پاکستان اس میں ملوث ہے، بھارت نے بعدازں بالا کوٹ پر ائیرسٹرائیک کا دعوی کیا اور کہا کہ انہوں نے ایک ٹریننگ کیمپ تباہ کیا ہے۔ اگلے روز پاکستان نے بھارتی طیارے کو مار گرایا اور پائلٹ کو گرفتار کر لیا جس کو بعدازاں رہا کر دیا گیا۔
یاد رہے کہ بھارت کی مرکزی حکومت نے آئین کا آرٹیکل 370 ختم کر دیا جس کے بعد کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ واپس لے لیا گیا ہے۔
اس سے قبل بھارت نے کشمیر میں ہزاروں اضافی فوجی تعینات کرنے کے بعد آج صبح دفعہ 144 نافذ کر دی تھی اور تعلیمی اداروں اور مواصلاتی نظام بند کرنے سے اندازہ ہو رہا تھا کہ بھارت کچھ بڑی کارروائی کرنے جا رہا ہے۔