اس پر سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہو رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اکیڈیمیا کے لوگوں کو اکیڈمکس کے ساتھ پیار سے پیش آنا چاہیے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر حکومتی جماعت کے حمایتی ہیں جنہیں یکایک عورتوں کے حقوق یاد آ گئے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مریم چغتائی کو ایسا اس لئے کہا جا رہا ہے کیونکہ وہ ایک عورت ہے۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو دل سے سمجھتے ہیں کہ پرویز ہود بھائی نے جارحانہ رویہ اختیار کیا جس کی وجہ سے قومی نصاب کی بحث ایک غلط راہ کی طرف نکل جائے گی۔
یہ تینوں انتہائی مضحکہ خیز دلیلیں ہیں۔ سب سے پہلے ان افراد کے بارے میں بات ہونی چاہیے جن کا خیال ہے کہ ساتھی اکیڈمکس کے سامنے حقیقت بتانے سے گریز کرنا چاہیے، اور خود کو سنسر کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟ اگر کوئی اکیڈمک حکومت کی بنائی گئی ایک ایسی کمیٹی کا حصہ ہو جو ملک پر ایک غلط قانون نافذ کرنے جا رہی ہو، تو اس کو صاف صاف کیوں نہ کہا جائے کہ وہ غلط ہے؟ مریم چغتائی ہوں یا کوئی بھی اور اکیڈمک، اسے حق نہیں پہنچتا کہ وہ قوم کے بچوں کو انتہا پسند بنائے۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ چونکہ مریم چغتائی ایک خاتون ہیں، اس لئے ڈاکٹر ہود بھائی نے ان کے بارے میں یوں بات کی۔ انگریزی زبان میں ایسی بودی دلیل کو strawman argument کہا جاتا ہے۔ یعنی بات کچھ ہو اور ایک غیر متعلقہ دلیل کو بحث میں محض اس لئے گھسیٹ لایا جائے تاکہ کسی طرح اپنی کمزور دلیل میں کچھ وزن پیدا کیا جا سکے۔ پرویز ہود بھائی گذشتہ کئی برسوں سے عوام کی نظر میں ہیں۔ ان کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ ان کی قطعاً ایسی سوچ نہیں۔ اس مباحثے میں بھی انہوں نے مریم چغتائی کی جنس کو نہیں، ان کے کام کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ حکومت کے حمایتیوں کی جانب سے یہ دلیل سامنے لانے سے لگتا ہے کہ ان کو اس کمیٹی میں شامل کرنے کا مقصد ہی غالباً یہ تھا کہ جب اس کام پر تنقید ہو تو یہ عورت کارڈ کھیلا جا سکے۔ عورت ہو یا مرد، انتہا پسندی کو بڑھاوا دینا کسی صورت بھی قابلِ قبول نہیں۔
تیسرے وہ لوگ ہیں جن کا ماننا ہے کہ پرویز ہود بھائی کو جارحانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے تھا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کے رویے میں صاف گوئی تھی، بیباکی تھی، انہوں نے تہذیب کا دامن کہیں ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ یہ تنقید کر رہے ہیں، انہیں اگر وقت ملے تو ذرا یہ نصاب اٹھا کر دیکھیں، اگر وہ دستیاب نہیں تو AH Nayyar کا ڈان اخبار میں چھپا 31 جولائی کا تفصیلی فیچر پڑھیں، تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ ہود بھائی کے الفاظ نہیں، حکومتی اقدامات جارحانہ ہیں، اور یہ ملک میں دہشتگردی کو مزید فروغ دینے والے ہیں۔
نیر کے مطابق پہلی اور دوسری جماعت کے طلبہ کو کبھی مدرسوں میں بھی حدیث یاد کروانے کا رواج نہیں تھا۔ اس نئے نصاب میں احادیث زبانی یاد کی جانا ضروری ہیں، عربی میں بھی اور اردو میں ترجمہ بھی۔ اور یہ سلسلہ پہلی اور دوسری جماعت سے آگے مزید بڑھتا چلا جاتا ہے، یعنی جوں جوں اس سے اوپر کی جماعتوں میں جایا جائے، پرائمری تک کا نصاب مزید مذہبی سے مذہبی ہوتا چلا جاتا ہے۔ قرأت کو بھی لازمی حصہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق یہ تقریباً درسِ نظامی کا کورس ہے جو کہ اب ہمارے پرائمری کے بچوں کر پڑھایا جانے والا ہے۔
اب اس مقصد کی خاطر یہ نصاب جس قانون کے تحت لایا جائے گا، وہ تمام سکولوں پر لازمی بنائے گا کہ سکول میں کم از کم ایک مدرسے کا سند یافتہ قاری اور ایک حافظِ قرآن کو لازمی سکول میں رکھا جائے۔ اس طرح مدرسوں میں پڑھنے والے طلبہ کی نوکریوں کا مزید بہتر انتظام کر دیا گیا ہے جس کا نتیجہ لا محالہ یہی نکلے گا کہ والدین اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے مدرسوں کی طرف مزید رجوع کریں گے۔ اس حوالے سے گذشتہ ہفتے نیا دور سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صفدر ملک نے انتہائی پر مغز تجزیہ کیا تھا، ذرا سنیے۔
ان تمام حقائق کی روشنی میں نقادوں سے گذارش ہے کہ پرویز ہود بھائی کا رویہ جارحانہ نہیں۔ وہ جذباتی انداز میں اپنا مقدمہ پیش کر رہے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ یہ نصاب اس قوم کے ساتھ کیا کرنے والا ہے۔ وہ دس سال بعد کی صورتحال کے لئے ابھی سے فکر مند ہیں اور آپ کو خبردار کر رہے ہیں۔ ساتھی اکیڈمک سے متعلق ان کے حقیقت پر مبنی تبصرے کو محض اس بنیاد پر رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ خاتون ہیں یا اکیڈمک ہیں۔ مریم چغتائی اپنا دفاع کرنے کے لئے آزاد ہیں۔ حکومت ان کے ساتھ ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک فوجِ ظفر موج ہے جو ان کی پشت پر کھڑی ہے۔ اور پھر یہ وہی معاشرہ ہے جہاں ایسے کسی نصاب کے موجود نہ ہونے کی صورت میں بھی راولپنڈی کے ممتاز قادری اور پشاور کے خالد جیسے غازیوں کی کوئی کمی نہیں۔ یہ معاشرہ ہود بھائی کا ساتھ تو دینے سے رہا۔ مریم چغتائی کو نہیں، آپ کی حمایت کی ضرورت اسے ہے جو آپ کے مستقبل اور آپ کے بچوں کے مستقبل کو غیر محفوظ بنانے والے نصاب کی مخالفت کر رہا ہے۔ وہ اس ملک میں مستقبل میں پیش آنے والے فساد کی پیشگی خبر دے رہا ہے، اور آپ محض لفظ فساد کے استعمال پر نالاں ہیں۔