رپورٹ کے مطابق مقدمے کے اندراج کے بعد وزارت دفاع، انٹیلی جنس بیورو، ملٹری انٹیلی جنس اور انٹر سروسز انٹیلی جنس سے معاونت کی درخواست کی گئی لیکن پولیس تحقیقات میں ابھی تک کسی محکمے نے جواب نہیں دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جائے وقوع کی جیو فینسنگ رپورٹ ابھی موصول نہیں ہوئی، موبائل کال ڈیٹا کے لیے واقعے کے دن ہی درخواست متعلقہ محکمے کو لکھ دی گئی تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد سیف سٹی کے کیمروں کا ریکارڈ بھی ابھی تک موصول نہیں ہوا، جائے بازیابی سے آنکھوں کی کالی پٹی، ٹیپ برآمد کر لیے گئے، آنکھوں کی پٹی اور منہ پر باندھی گئی ٹیپ کی فرانزک رپورٹ بھی موصول نہیں ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق نادرا نے بھی فوٹیج میں موجود اغوا کاروں کی شناخت کے بارے میں جواب نہیں دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاملے کی ایس آئی ٹی نے تفتیش کی لیکن اس معاملے پر جے آئی ٹی بنائی جائے گی جب کہ مطیع اللہ جان کے اغوا کے مقدمے میں انسداد دہشتگردی کی دفعہ 7 بھی شامل کر لی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملزمان کی تلاش اور شناخت کے لیے بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ تمام اضلاع کی پولیس اورایف آئی اے کو خط لکھا گیا کہ کیا مطیع اللہ جان انہیں کسی مقدمے میں مطلوب تھے تو تمام اضلاع کی پولیس اور ایف آئی نے جواب میں کہا کہ مطیع اللہ جان مطلوب نہیں۔
خیال رہے کہ 21 جولائی کو مسلح افراد نے دن دیہاڑے صحافی مطیع اللہ جان کو اغوا کیا تھا اور 12 گھنٹے بعد اسلام آباد سے 70 کلومیٹر دور فتح جنگ کے علاقے میں چھوڑا تھا۔