بی اے پی، ناراض گروپ متحرک، جام کمال حکومت کو بحران کا خدشہ
پارٹی کی خواتین اور اقلیتی ارکان سمیت دیگر اراکین اسمبلی نظر انداز کرنے پر ناراض، جلد آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے، ذرائع
چیئرمین سینیٹ ایک بار پھر پارٹی کے اندرونی اختلافات ختم کرنے کیلئے جلد کوئٹہ کا دورہ کرینگے، رہنماؤں سے ملاقات متوقع
بلوچستان عوامی پارٹی کی خواتین، اقلیتی سمیت دیگر ارکان اسمبلی نظرانداز کرنے پر ناراض ہیں، جلد گروپ کی شکل میں آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کریں گے، جام کمال حکومت کو نئے بحران کے سامنے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
باوثوق ذرائع کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی کے منتخب اور انتخابات میں شکست کھانے والے امیدواروں کو نظر انداز کیے جانے پر باپ پارٹی کی خواتین اور اقلیتی ارکان بھی ناراض نظر آتے ہیں، وہ وزیراعلیٰ بلوچستان اور پارٹی قیادت کی جانب سے مسلسل نظرانداز کیے جانے پر دلبرداشتہ ہیں، معاون خصوصی کی تقرری میں بھی خواتین اور اقلیت کو نظرانداز کیا گیا، ماضی کی حکومتوں میں خواتین اور اقلیتی نمائندوں کو ترجیحی بنیادوں پر ایڈجسٹ کیا جاتا رہا ہے، پارٹی کے دیگر ارکان اسمبلی اور عام انتخابات میں شکست کھانے والے امیدوار بھی کافی ناراض ہیں، گذشتہ روز سابق وزیر امان اللہ نوتیزئی کا پارٹی سے مستعفی ہونے کا اعلان بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ ذرائع کے مطابق پارٹی رہنماؤں کے درمیان اٹھنے والے اختلافات کے باعث پارٹی کئی دھڑوں میں تقسیم ہونے کا امکان ہے۔ امان اللہ نوتیزئی کے بعد عام انتخابات میں ناکام رہنے والے سابق وزرا کچھ دنوں میں پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی مرکزی قیادت پارٹی اختلافات ختم اور ناراض رہنماؤں کو منانے کیلئے تگ و دو کوششیں کر رہی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین سینیٹ ایک بار پھر پارٹی کے اندرونی اختلافات ختم کرنے کے لئے جلد کوئٹہ کا دورہ کرینگے اور پارٹی رہنماؤں سے ملاقات کر کے ان کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کریں گے، چیئرمین سینیٹ نے حکومت بلوچستان اور سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کے درمیان اختلافات ختم کر دیے ہیں، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کہا ہے کہ سپیکر صاحب چونکہ ایک سرگرم سیاسی رہنما ہیں اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں پارٹی سرگرم رہے۔ سپیکر کے تحفظات کو وزیراعلیٰ بلوچستان تک پہنچا دیا ہے اور انہوں نے سپیکر بلوچستان اسمبلی کی شکایات کا ازالہ کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
بلوچستان کا مسئلہ لاپتہ افراد سے جڑا ہے سی پیک سے حل نہیں ہوگا،اختر مینگل
وفاقی حکومت نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے، حکمرانوں کو صرف اقتدار عزیز ہے، سربراہ بی این پی
حکومت اگر بلوچستان کے مسائل حل نہیں کر سکتی تو آج ہی گر جائے ہمیں پرواہ نہیں، لاپتہ افراد کے کیمپ میں متاثرین سے بات چیت
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اخترجان مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ حکومت بنانے یا گرانے، ڈیموں یا سی پیک سے حل نہیں ہوگا بلکہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور سیاسی طور پر ہی مسئلے کو حل کیا جائے۔ وفاقی حکومت نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے ہمیں مثبت جواب دیا گیا ہے، بلوچستان حکومت میں شامل لوگ اقتدار کیلئے آئے ہیں انہیں اقتدار سے پیار اور محبت ہے اور جن لوگوں نے ان کو اقتدار دیا ہے مسائل کے حل کیلئے نہیں انہیں صرف اور صرف اقتدار دینے کیلئے اختیار دیا ہے۔ کمال ہو یا جمال ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ہمیں وہ جمال چاہیے جو کمال کر سکے۔ سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل نے کہا کہ ہمارے پاس وہ الفاظ نہیں کہاں سے آغاز کروں کہ کیمپ میں بیٹھے ہوئے لاپتہ افراد کے لواحقین سرد موسم میں اپنے ورثا کی تلاش کیلئے جس کرب سے گزر رہے ہیں، وفاقی اور صوبائی حکومت اسے محسوس کریں تو یہ بہت بڑا مسئلہ ہے مگر محسوس کرنے والا کوئی نہیں ہے تو ان کے منہ پر طمانچہ ہے۔ یہ لوگ صرف مراعات لینے کے قابل ہیں، مسائل کے حل کیلئے نہیں آئے ہیں۔ یہ لاپتہ افراد کے لواحقین بھی اس ملک کے لوگ ہیں جو اپنے بھائی، باپ اور بیٹوں کی بازیابی کیلئے احتجاج کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ان مطالبات کو پورا نہیں کر سکتی تو پھر حکومت کرنے کا کوئی جواز نہیں رکھتی، ہم کیمپ میں آئے ہیں اور لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر کے خود پیش بھی ہوئے۔ لاپتہ افراد کے ورثا گھر کا سامنا بیچ کر سپریم کورٹ میں پیش ہوتے رہے مگر اس کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔ سیاسی جماعتوں نے وزارتوں اور اقتدار کیلئے فہرستیں فراہم کیں ہم نے اقتدار کی لالچ نہیں کی اور لاپتہ افراد کی لسٹ حکومت کو فراہم کی مگر اب تک حکومت کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔
تحریک عدم اعتماد کی صورت میں جام کمال کو سپورٹ کرینگے، ن لیگ بلوچستان
نواب ثناء اللہ زہری اپنے فیصلے میں آزاد ہیں، انتخابات میں دھاندلی کے زریعے مسلم لیگ ن کا راستہ روکا گیا، عبدالقادر بلوچ
بلدیاتی انتخابات میں بھر پور حصہ لیں گے، مہنگائی کا طوفان آنے والا ہے، رخشان ڈویژن کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں، پریس کانفرنس
مسلم لیگ ن بلوچستان کے صدر عبدالقادر بلوچ نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی صورت میں جام کمال کو سپورٹ کرینگے، نواب ثناء اللہ زہری اپنے فیصلے میں آزاد ہیں، انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے مسلم لیگ ن کا راستہ روکا گیا، بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ ن بھر پور حصہ لے گی۔ گذشتہ روز کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ ن بلوچستان کے نومنتخب صدر عبدالقادر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی میں جام کمال صوبے میں حکومت چلانے کیلئے بہترین انتخاب ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے کی صورت میں مسلم لیگ ن جام کمال کا ساتھ دیگی، تاہم ن لیگ کے رکن بلوچستان اسمبلی نواب ثنا اللہ زہری اپنے فیصلے میں آزاد ہوں گے۔ ان کا شکوہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان سے متعدد مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے میرا فون نہیں اٹھایا شاید وہ مجھے اپنے برابر نہیں سمجھتے۔ جام کمال خان بیلہ کے نواب ہیں ہماری ان سے برابری نہیں۔ انہوں نے کہا مسلم لیگ ن ملک کی سب سے مقبول سیاسی جماعت ہے، اگر شفاف انتخابات ہوتے تو دعویٰ سے کہتا ہوں پنجاب اور اسلام آباد میں ن لیگ کی حکومت بنتی جبکہ صوبے میں اکثریت ہماری جماعت کی ہوتی۔ مسلم لیگ ن کو بلوچستان بھر میں وارڈ کی سطح تک لے جائیں گے اور بلدیاتی انتخبات میں بر پور حصہ لیں گے۔
بلوچستان سے زائرین کی ایرانی روانگی سکیورٹی رسک ہے، صوبائی حکومت کی وزیراعظم کو بریفنگ
اخرجات بہت آتے ہیں، کوئٹہ سے تفتان 650 کلو میٹر دور، چھوٹے بڑے شہروں میں ٹریفک بندش سے عوام کو مشکلا ت ہیں، صوبائی افسران
زائرین کیلئے فوری طور پر کراچی اور گوادر سے ایران تک فری سروس، مند اور گپت کے بارڈرز کھولنے و دیگر تجاویز پیش کی گئیں، ذرائع
حکومت بلوچستان نے ایران جانے والے زائرین سے متعلق وزیراعظم عمران خان کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ زائرین کے بلوچستان کے راستے ایران روانگی سکیورٹی رسک ہے جبکہ سفری اخراجات بھی بہت آتے ہیں، کوئٹہ سے تفتان 650 کلو میٹر دور ہے، قافلے کی روانگی کے دوران راستے میں آنے والے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ٹریفک کی بندش سے عوام کو شدید مشکلات ہیں، تجاویز بھی وزیراعظم عمران خان کے سامنے رکھی گئی ہیں جن پر وفاقی حکومت نے سنجیدگی سے غور کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ ملک بھر سے سارا سال اور خصوصاً محرم الحرام اور اربعین کے دوران زائرین کی بڑی تعداد بلوچستان سے سڑک کے راستے ایران جاتی ہے۔ زائرین کے قافلوں کیلئے کوئٹہ سے تفتان تک سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ ایف سی، پولیس، لیویز کے سینکڑوں جوان زائرین کے قافلوں کو سکیورٹی فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے دیگر مسائل سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ ان سب پر بھاری بھرکم اخراجات بھی آتے ہیں جبکہ عوام کو بھی شدید مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس موقع پر حکومت بلوچستان کی جانب سے متبادل تجاویز پیش کی گئیں جن میں زائرین کیلئے فوری طور پر کراچی اور گوادر کے راستے ایران تک فری سروس، مند اور گپت کے بارڈرز کھولنے، تمام ایئر لائنز کو رعایتی نرخون پر زائرین کو ایران پہنچانے کی تجاویز شامل تھیں، بلوچستان کے حکام کا کہنا تھا کہ اگر تجاویز پر عملدرآمد ہو جاتا ہے تو رسک نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔
این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کا حصہ نہیں کٹے گا، صوبائی وزرا
وزیراعظم نے یقین دہانی کرا دی، میرٹ پر بھرتیوں کیلئے چیف سیکرٹری کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دیدی، پاکستان بینک قائم کریں گے
ڈیمز کیلئے ایشیائی ڈیولپمنٹ بینک سے 15 ارب روپے کا قرضہ لینگے، ظہور بلیدی، عارف جان حسنی، سردار عبدالرحمن کی پریس کانفرنس
صوبائی وزرا ظہور احمد بلیدی، عارج جان محمد حسنی، میر سلیم احمد کھوسہ اور سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے کہا ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملنے والی رقم کی کٹوتی نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ بلوچستان میں 29 ہزار آسامیاں خالی ہیں، حکومت بلوچستان نے ایک سے 15 اور 16 سے 19 گریڈ تک تمام خالی پوسٹوں کو فی الفور پر کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ بلوچستان خالی پوسٹوں پر میرٹ کے تحت بھرتیوں کے حوالے سے چیف سیکرٹری بلوچستان کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے، بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا تو لوگ مزاحمت کا راستہ اختیار نہیں کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے تین ماہ پورے کر لیے ہیں اور تین ماہ کی کارکردگی سے عوام کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ صوبے کی تاریخ میں پہلی کابینہ ک اجلاس کو اتنی اہمیت دی گئی اور 22 گھنٹے کے طویل دورانیہ تک اجلاس جاری رہا جس میں تمام اضلاع کا ڈویلپمنٹ پلان بنانے کی منظوری دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے مستقبل کے لئے ضروری اداروں کے قیام کی بھی منظوری دی گئی۔ صوبے میں پاکستان بینک کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس سے ڈیڑھ ہزار نوجوان برسر روزگار ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان ریونیو اتھارٹی نے رواں سال 7 ارب روپے جمع کیے۔ صوبائی حکومت اپنے وسائل کو بڑھانے کیلئے کوشاں ہے۔ اس سلسلے میں پانچ اضلاع میں ریونیو کمشنریٹ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔